بھارت، اقلیتی مسیحیوں کو کیسے دبایا جا رہا ہے؟
14 دسمبر 2021نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں مدر ٹریسا کے قائم کردہ خیراتی ادارے کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مقامی پولیس حکام کے مطابق اس خیراتی ادارے پر الزامات ہیں کہ شیلٹر ہاؤس میں لڑکیوں کو کراس پہننے اور بائبل پڑھنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
ضلعی سماجی افسر میانک ترویدی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پولیس کے پاس اس حوالے سے ایک شکایت چائلڈ ویلفیئر حکام اور دیگر ضلعی حکام کے کہنے پر درج کروائی گئی ہے۔ درج کروائی گئی شکایت کے مطابق اس ادارے کی لائبریری میں تیرہ عدد بائبل کے نسخے موجود ہیں اور شیلٹر میں موجود لڑکیوں کو یہ مذہبی ٹیکسٹ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس فلاحی ادارے نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔
دی مشنریز آف چیریٹی نامی ادارہ مدر ٹریسا نے 1950 میں قائم کیا تھا۔ مدر ٹریسا ایک رومن کیتھولک راہبہ تھیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کولکتہ میں گزارا اور وہ اس ملک میں فلاحی کام کرتی رہیں۔ انہی سماجی خدمات کے بدلے میں انہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق 2014ء میں مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو امتیازی سلوک اور تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سن 2020 میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو ''خاص تشویش کا ملک‘‘ قرار دیا تھا۔ بھارت کو سن 2004 کے بعد پہلی مرتبہ اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب مودی حکومت ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ سخت گیر نظریے ''ہندوتوا‘‘ کی پیروکار ہے۔ حکومتی بیان کے مطابق ملک کے تمام مذاہب کے لوگ برابری کے حقوق رکھتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس حکومتی دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا کہ سخت گیر ہندو گروہوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صرف رواں برس 300 سے زیادہ مسیحی مخالف واقعات رونما ہوئے ہیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی 200 سے 300 لوگوں کے ایک ہندو ہجوم نے مدھیہ پردیش کے ایک عیسائی اسکول پر پتھراؤ کیا اور یہ مشتعل افراد عمارت کے اندر اس وقت گھس گئے تھے، جب طلباء امتحان دے رہے تھے۔
سینٹ جوزف سکول کے پرنسپل برادر انتھونی ٹینمکل کا کہنا تھا، ''ہمیں بچوں کو آڈیٹوریم سے اسکول کے دوسرے ونگ میں منتقل کرنا پڑا۔ ہم نے انہیں پہلی منزل پر رکھا اور امتحان ختم کرنے کے لیے اضافی وقت دیا۔ لیکن طلباء لکھ نہیں سکتے تھے، وہ خوف سے رو رہے تھے اور کانپ رہے تھے۔‘‘
ا ا / ع ح ( اے ایف پی، ڈی پی اے، کے این اے)