بھارت اور چین کے مابین سرحد پر کشیدگی میں اضافہ
20 مئی 2020بھارت اور چین کے درمیان یہ نیا سرحدی تنازعہ ایسے وقت پیدا ہوا ہے جب بھارت اور نیپال کے درمیان حالیہ سرحدی تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
بھارت اور چین نے متنازع اکسائی چن علاقے کے وادی گالوان میں ایل اے سی پرتعینات اپنی اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وادی گالوان کے اطراف میں چینی فوج نے تقریباً ایک سو خیمے نصب کردیے ہیں اور پینگانگ سو جھیل میں فوجی کشتیو ں کی تعداد بڑھا دی ہے جس کے بعد ہی بھارتی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف چین کا الزام ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں فوجی بنیادی ڈھانچے تعمیر کررہا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان فوجی کشیدگی کی اس پیش رفت سے قبل پانچ مئی کو پینگانگ سو جھیل علاقے میں دونوں ملکوں کے تقریباً ڈھائی سو فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں کا استعمال کیا تھا اور پتھراو بھی ہوا تھا جس میں بھارت کے چار اور چین کے سات فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح کا ایک اورواقعہ نو مئی کو سکم کے ناکولا درہ علاقے میں پیش آیا تھا جب بھارت او رچین کے ڈیڑھ سو فوجی آمنے سامنے آگئے تھے اور اس جھڑپ میں دس فوجی زخمی ہوگئے تھے۔
بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے ان دونوں واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی فوج ایل اے سی پر اپنی جگہ پر قائم ہیں اور سرحدی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ پر کام جاری ہے۔انہوں نے اعترا ف کیا تھا کہ ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے جوانوں کا سلوک جارحانہ تھا اور انہیں معمولی چوٹیں آئی تھیں۔
دوسری طرف بھارتی فضائیہ کے سربراہ آر کے ایس بھدوریا کا کہنا تھا ”وہاں کچھ غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی گئی تھیں۔ ہم اس طرح کے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ضروری کارروائی بھی کرتے ہیں۔“
بھارت اور چین کے درمیان تازہ سرحدی کشیدگی کے حوالے سے فی الحال حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے گزشتہ دنوں پریس بریفنگ میں اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ”بھارت چین کے ساتھ سرحد پر امن اور تحمل برقرار رکھنے کے حق میں ہے اور اگر سرحد ی تنازع کے سلسلے میں باہمی تبادلہ خیال ہوتا تو اس طرح کے واقعات سے بچا جاسکتا تھا۔“
دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے تازہ واقعے کے مدنظر باہمی جھڑپیں بھی ہوسکتی ہیں کیوں کہ دونوں ممالک کی افواج اب اپنے اپنے مفادات کا پہلے سے کہیں زیادہ شدت اور طاقت کے ساتھ دفاع کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں تصادم کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اس وقت ان تمام متنازع علاقوں پر اپنے دعووں کو مضبوط بنانا چاہتا ہے جس کے بارے میں اس کا دعوی ہے کہ وہ اس کے علاقے ہیں حالانکہ درحقیقت یہ علاقے متنازع ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اکسائی چن میں بھارت کی سرگرمیاں دراصل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق اس کی حالیہ سرگرمیوں کی کڑی کا حصہ ہیں، جن پر اس نے اپنے دعووں کو مستحکم کرنا شروع کردیا ہے۔ اور اس پہل کے تحت پچھلے دنوں مظفر آباد، گلگت بلتستان وغیرہ علاقوں کے موسم کی پیش گوئی نشر کرنا شروع کیا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت اور چین کی سرحدیں دنیا کی طویل سرحدوں میں سے ایک ہے اور وہاں 1962 کی جنگ سمیت مختلف لڑائیاں ہوچکی ہیں۔دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ 2017 میں دونوں کے درمیان ڈوکلام میں ایک مہینے تک فوجی تعطل رہا تھا جب دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئی تھیں۔
دریں اثنا بھارت اورنیپال کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ نیپالی وزیر اعظم کے پی اولی نے دو روز قبل نیپال کا نیا نقشہ جاری کیا جس میں اس علاقے کو نیپال کا حصہ قرار دیا جس پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے اور جہاں پچھلے دنوں ایک سڑک کا بھارتی وزیر دفاع نے افتتاح کیا تھا۔ نیپالی وزیر اعظم نے بدھ 20 مئی کو پارلیمان میں کہا کہ وہ ’کالا پانی۔لمپیا دھورا۔لیپو لیکھ‘ علاقے کو ہر قیمت پر واپس لیں گے۔ نیپالی وزیر اعظم نے اپنے ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ”بھارت سے آنے والا (کورونا) وائرس چین اور اٹلی کے وائرس سے بھی کہیں زیادہ مہلک دکھائی دے رہا ہے۔“