بھارت بلیم گیم بند کرے، پاکستان
13 اگست 2014بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم اور قوم پرست ہندو لیڈر نریندر مودی نے یہ بیان منگل کو کارگل کے اپنے ایک اچانک دورے سے کچھ لمحے پہلے دیا تھا۔ کارگل کشمیر کا وہ دور افتادہ علاقہ ہے جہاں جنوبی ایشیاء کی دونوں جوہری طاقتوں کے مابین 1999 ء میں خونی جھڑپیں ہو چُکی ہیں۔
نئی دہلی ایک عرصے سے اسلام آباد پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپوں، جیسے کہ لشکر طیبہ کو ہمالیہ کے منقسم علاقے میں بھارت کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کے ان الزامات کی پاکستان کی طرف سے بارہا تردید کی جاتی رہی ہے۔
گزشتہ روز دیے گئے مودی کے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا، ’’مودی نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بھارت کے بے بنیاد الزام کو دہرایا ہے۔‘‘ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی طرف سے نئی دہلی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایک تعمیری لائحہ عمل اپنائے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’بھارت میں اعلیٰ سیاسی سطح پر پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں میڈیا رپورٹیں بہت افسوسناک اور دل شکن ہیں اور یہ کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے جیسا تعلق رکھنا چاہتا۔‘‘
پاکستان نے کہا ہے کہ وسیع تر علاقائی مفاد اس میں ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک ’بلیم گیم‘ یا الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھنے کی بجائے تمام تر باہمی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا رستہ اختیار کرے اور دوستی اور تعاون کے فروغ کے لیے مل کر کام کرے۔
کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے اور دونوں اس خطے کے دعویدار ہیں تاہم دونوں کی حکومتوں کی عمل داری میں کشمیر کا ایک ایک حصہ ہے۔ کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگوں کا سبب بن چُکا ہے۔
1989ء سے بھارتی حکومت کے خلاف ریاست جموں وکشمیر میں علیحدگی پسند کشمیری باغیوں نے لڑائی شروع کر رکھی ہے۔ باغیوں کے قریب ایک درجن گروپ کشمیر کی آزادی یا پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق کے خواہاں ہیں۔ اس لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔
15 سال پہلے دونوں ملکوں کے درمیان کارگل کے مقام پر ہونے والی لڑائی میں 1000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گزشتہ روز کارگِل پہنچنے سے قبل کشمیری علاقے لداخ میں بھارتی فوجیوں سے خطاب کرتے مودی کا کہنا تھا کہ ملکی فوج کو جنگ کی بجائے دہشت گردی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مودی کا کارگل کا دورہ ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب پاکستان نے حال ہی میں اپنے مشرقی شہر سیالکوٹ کے نزدیک سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ کے واقعے کے بعد ایک سینیئر بھارتی سفارت کار کو طلب کر لیا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس فائرنگ میں کم ازکم ایک شہری ہلاک ہو گیا تھا۔