بھارت: لڑکیوں کی شادی 18برس میں ہو یا21 میں؟
28 فروری 2020بعض حلقوں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ان کا بھی یہ ماننا ہے کہ بھارت کے پدرسری والے سماج میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
دراصل بھارتی وزیر خارجہ نرملا سیتارامن نے اس سال عام بجٹ پیش کرنے کے دوران لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 18 برس سے بڑھا کر 21 برس کرنے کی تجویزپیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس تجویز پر غور کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس مقررکی جائے گی جو چھ ماہ کے اندر اپنی رپورٹ دے گی۔
’کم سنی کی شادی مسئلہ تو ہے‘ مگر حل کیا ہے؟
کم عمری کی شادیاں: پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر، ہر شادی ایک المیہ
بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے حق میں کئی دلائل دیے جاتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ بڑی عمر کے شوہر کا حکم ماننے پر بیوی کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔ ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں جلد سمجھدار (Mature) ہوجاتی ہیں اس لیے دلہن کودولہے سے کم عمر کا ہونا چاہیے۔
تاہم ماہرین سماجیات لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کرتے رہے ہیں۔
دہلی میں سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رنجنا کماری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’ہم نے عدالت میں ایک عرضی دائر کی اوراس کی نقل وزیر خزانہ کو بھی ارسال کی جس میں کہا گیا ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمر 18برس اور لڑکے کی عمر 21 بر س رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے جلد میچیور ہونے کے دعوؤں کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک سماجی روایت ہے۔“
ڈاکٹر رنجنا کماری کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ شادی کے لیے لڑکیوں کی عمر لڑکوں سے کم ہی ہونی چاہیے۔ دنیا میں ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں لڑکیاں زیادہ عمر کی ہوتی ہے۔ مغربی ملکوں میں تو 90فیصد شادیوں میں لڑکیاں لڑکوں سے عمر میں بڑی ہوتی ہیں۔ بھارت میں بھی ان چیزوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ”چونکہ لڑکوں کی شادی کی کم سے کم عمر کو کم کرنے کا سوال ہی نہیں ہے اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ لڑکیوں کی عمر بڑھا کر 21برس کردی جائے۔“ ڈاکٹر رنجنا کماری کا خیال ہے کہ کم عمری میں شادی ہونے کی وجہ سے لڑکیاں بچوں کی پرورش ٹھیک طرح سے نہیں کر پاتیں اور شادی کی عمر بڑھانے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں کی اموات کی شرح کم ہوجائے گی۔ ''ایک فائدہ یہ بھی ہو گاکہ جب میاں بیوی دونوں برسر روزگار ہوں گے تو خاندان کی معاشی صورت حال اچھی ہوگی اور اس سے ملک کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوگی۔"
ماہر امراض نسواں اور سماجی کارکن ڈاکٹر ستیاکی ہالدھرکا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 21 کرنے کا قانون بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔”چونکہ بھارت میں لوگ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کی جلد سے جلد شادی کرکے انہیں سسرال بھیج دیا جائے۔ اس لیے قانون بنانے کے بعد بھی لوگ کوئی نہ کوئی چور دروازہ تلاش کر ہی لیں گے۔دراصل لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ لڑکی صرف شادی یا بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتی اور لڑکی کو اپنی پسند کے جیون ساتھی کے انتخاب کی آزادی ملنی چاہیے، اس کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہئے۔‘‘
ڈاکٹر ہالدھر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو شادی کرنے سے قبل انہیں شادی اور بالخصوص صحت سے متعلق معاملات اور مسائل نیز بچوں کی پیدائش کے حوالے سے ضروری معلومات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین سماجیات کا خیال ہے کہ بھارت جیسے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کا قانون بنانا اور اسے عملی طورپرنافذ کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔
ماہر سماجیات آنند کمار کے مطابق، ”شادی انسان کے سماجی اور ثقافتی پہلو کا حصہ ہے۔ بھارتی سماج میں شادی کا معاملہ خاندانی پس منظر، ذات، پیشہ وغیرہ جیسے پہلووں سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ گاؤں میں جہاں لوگ کم پڑھے لکھے اور غریب ہوتے ہیں وہ لڑکیوں کی شادی 15-16 برس کی عمر میں ہی کر دیتے ہیں جب کہ شہروں میں خوش حال گھرانوں میں 18-19 برس سے کم عمری میں کسی کی شادی نہیں ہوتی۔ راجستھان میں لاکھوں کی تعداد میں کمسن بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور وہاں لوگ حکومت کے کہنے پر شادی طے نہیں کریں گے۔“
آنندکمار کا کہنا تھا ”بھارت میں جب بھی حکومتوں نے شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی مخالفت ہوئی ہے۔ اس طرح کی تبدیلی کے لیے سماج میں وسیع پیمانے پر ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور بھارت میں یہ کام آسان نہیں ہے۔“