’بھارت میرا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہے‘: نیپالی وزیراعظم
29 جون 2020نیپالی وزیر اعظم کا یہ تازہ بیان دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کا ایک اور ثبوت ہے۔ کے پی اولی کا کہنا ہے کہ نیپالی پارلیمنٹ میں انہیں اکثریت حاصل ہے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کی بھارت کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
نیپال کے کثیر الاشاعت اخبار کٹھمنڈو پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کے پی اولی نے اتوار کے روز ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا”اس وقت جو دانش ورانہ تبادلہ خیا ل ہورہے ہیں اور نئی دہلی سے میڈیا میں جو خبریں آرہی ہیں نیز کٹھمنڈو میں واقع بھارتی سفارت خانے کی سرگرمیاں اور الگ الگ ہوٹلوں میں ہونے والی میٹنگوں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح سے لوگ سرگرم ہوکر مجھے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔“
وزیر اعظم اولی کے بیان پر بھارت نے فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے تاہم کہا کہ بھارت کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ نیپال اس کا قیمتی پڑوسی اور دوست ہے اور بھارت نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ کووڈ 19کے بحران میں بھی نیپال کو تمام ضروری اشیاء کی سپلائی متاثر نہ ہونے پائے۔
نیپالی وزیر اعظم اولی نے بھارت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ”آپ نے بھی سنا ہوگا، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نیپال کے وزیر اعظم کو 15 دن میں ہٹا یا جاسکتا ہے۔ اگر مجھے اس مرتبہ ہٹایا گیا تو پھر کوئی بھی نیپال کے حق میں بولنے کی جرأت نہیں کرے گا کیوں کہ ایسا کرنے پر اسے فوراً برطرف کردیا جائے گا۔ میں اپنے لیے نہیں بول رہا ہوں میں ملک کی بات کررہا ہوں۔ ہماری پارٹی، ہماری پارلیمانی پارٹی اس طرح کے جال میں نہیں پھنسے گی۔ جو لوگ ایسا کررہے ہیں، انہیں کرنے دیجیے۔“
نیپالی وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جب سے انہوں نے نیپال کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے، جس میں بھارت کے اتراکھنڈ ریاست کے کچھ علاقوں کو نیپال کا علاقہ دکھایا گیا ہے، اس کے بعد سے ہی ان کو برطرف کرنے کی سازشیں شروع ہوگئی ہیں۔ کے پی اولی کا کہنا تھا”نیپال کی قوم پرستی اتنی کمزور نہیں ہے۔ ہم نے اپنا نقشہ تبدیل کیا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نیپا ل کا نیا نقشہ منظور کرانا ’جرم‘ ہے۔ اس ’جرم‘ کی وجہ سے ملک کے وزیر اعظم کو برطرف کرنے کے بارے میں نیپال کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا۔
اگست 2016 میں بھی اولی کی اقتدار سے معزولی کے لیے بھارت پر انگلیاں اٹھائی گئی تھیں۔ اس وقت وہ پہلی مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور صرف نو ماہ تک ہی اس عہدہ پر برقرار رہ سکے تھے۔ اولی کی معزولی کو چین کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا گیا تھا کیوں کہ بیجنگ نے بھارت پر نیپال کے اقتصادی انحصار کو کم کرنے کے خاطر کمیونسٹ رہنما اولی کی مدد کرنے کے لیے تجارت او ر توانائی کے شعبے میں کئی معاہدے کیے تھے۔ نیپالی وزیر اعظم نے کہا ”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے چین کے ساتھ ٹرانزٹ معاہدے پر دستخط کیا تو مجھے برطرف کردیا گیا۔“
نیپالی عوام کی اکثریت 2015-16 کی اقتصادی پابندی کے لیے اب بھی بھارت کو قصوروار گردانتے ہیں۔ نیپال میں نیا آئین منظور ہونے کے بعد بھارت نزاد مدھیشیوں کی طرف سے مظاہروں اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نیپالی عوام کو مہینوں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نیپال نے گذشتہ دنوں اس وقت بھی سخت ناراضگی کا اظہا رکیا تھا جب ملک کا نیا سیاسی نقشہ جاری ہونے پر بھارتی آرمی چیف ایم ایم نروانے نے چین کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ نیپال کس ملک کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ کے پی اولی کو ملک میں کئی محاذوں پر مخالفت کا سامنا ہے۔ کووڈ19سے نمٹنے کے حوالے سے بھی ان کی نکتہ چینی ہورہی ہے اور انہوں نے اس کی طر ف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے قوم پرستی کا کارڈ کھیلا، جس کا جواب ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔ حالانکہ نیپال کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ کے پی اولی کو کسی ایک ہی عہدہ پر فائز رہنا چاہیے۔ یا تو وہ پارٹی کے سربراہ رہیں یا پھر وزیر اعظم۔
سیاسی تجزیہ نگار سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیپال نے حالیہ عرصے میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں ملک کا نیا سیاسی نقشہ منظورکرنا، شہریت قانون میں ترمیم کرنا، جس کی وجہ سے بھارتی خواتین کونیپالی مردوں سے شادی کرنے کے بعد اب سات برس کے بعد شہریت مل سکے گی اور بھارتی صوبے بہار کے چمپارن میں ایک ڈیم کے مرمتی کام کی اجازت دینے سے انکار کرنا۔ ان سب کے ذریعہ نیپال بظاہر اب اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنے پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے اور بھارت کو پیغام دے رہا ہے کہ نیپال کی حیثیت کو نظر انداز نہ کرے۔