بھارت میریٹل ریپ قانون پر جرمنی سے کیا سیکھ سکتا ہے؟
16 اکتوبر 2024بھارت کی مرکزی حکومت نے حال ہی میں میریٹل ریپ یا 'ازدواجی عصمت دری' پر سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ شادی شدہ جوڑے کے درمیان اختلاف کی بنیاد پر جنسی تعلق کو عصمت دری نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہاں حکومت نے وہی دلائل دیئے جو جرمنی کی بعض سیاسی جماعتوں نے 1990 کی دہائی میں دیے تھے۔
کیا بیوی کے ساتھ جبری ہم بستری ’جنسی زیادتی‘ نہیں؟
حکومت ہند نے کہا کہ شادی ایک الگ زمرہ ہے، جسے دیگر معاملات کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ مزید یہ کہ ایسا کرنے سے نکاح کے ادارے میں بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ازدواجی عصمت دری کا تعلق قانون سے زیادہ معاشرے سے ہے، اس لیے اس پر پالیسی بنانے کا فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے۔
اس وقت میریٹل ریپ کے معاملے پر آٹھ عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارتی عدالتوں میں میریٹل ریپ کا معاملہ زیر بحث آیا ہو۔ اس سے پہلے اس معاملے کی دہلی ہائی کورٹ میں جنوری 2022 میں سماعت ہوئی تھی۔ تب ہائی کورٹ کی بنچ نے منقسم فیصلہ دیا تھا۔ اس وقت حکومت ہند نے دہلی ہائی کورٹ میں یہی دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ میریٹل ریپ شوہروں کو ہراساں کرنے کا ہتھیار بن سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
بھارتی حکومت کا موقف اس کے اپنے اعداد و شمار کا تضاد لگتا ہے۔ بھارت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق، ہر تین میں سے ایک عورت کو اس کے شوہر نے جسمانی یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ زیادہ تر خواتین نے شکایت کی کہ ان کے انکار کے باوجود ان کے شوہر ان کے ساتھ زبردستی جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔
پاکستان میں میریٹل ریپ پر بات کرنا مشکل کیوں ہے؟
اس کے علاوہ 2012 میں دہلی میں اجتماعی ریپ کے بعد بنائی گئی جسٹس جے ایس ورما کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ بھارتی قانون میں میریٹل ریپ سے متعلق استثنیٰ کو ختم کیا جائے۔ شادی کے رشتے کو "جنسی سرگرمی" کے لیے اٹل رضامندی کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انڈین جوڈیشل کوڈ کے اس استثنیٰ کے مطابق، شوہر کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ کسی قسم کا جنسی فعل کرنا جرم نہیں ہے، بشرطیکہ بیوی کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو۔
کیا جرمن قانون بھارت کے لیے مثال بن سکتا ہے؟
جب جرمنی میں میریٹل ریپ پر بحث شروع ہوئی تو کم و بیش وہی دلائل پیش کیے گئے جو اب حکومت ہند دے رہی ہے۔ تاہم جرمن پارلیمنٹ نے اس جرم کے خلاف قوانین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مختلف پارٹیوں کی خواتین ایم پی ایز کے اتحاد اور قیادت نے یہ ممکن بنایا۔ قدامت پسند نظریہ سے تعلق رکھنے والے افراد، رہنماؤں اور تنظیموں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
جرمنی میں 1997 سے 'ازدواجی عصمت دری' ایک جرم ہے۔ تاہم جرمن پارلیمنٹ میں اسے جرم سمجھنے کے لیے تقریباً دو دہائیوں تک طویل بحث ہوتی رہی۔ ازدواجی عصمت دری پر بحث کے دوران یہ دلائل دیے گئے کہ جب کوئی اجنبی عورت کا ریپ کرتا ہے اور جب شوہر اپنی بیوی کو جنسی تعلقات پر مجبور کرتا ہے تو ان دونوں صورتوں کو ایک ہی عینک سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
بھارت میں بھی اس حوالے سے پالیسی سازوں کا وہی رخ سامنے آیا ہے۔ 2016 میں اس وقت کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر مینکا گاندھی نے ازدواجی عصمت دری کو غیر ملکی تصور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت میں ناخواندگی، غربت، سماجی اور مذہبی اقدار کے پیش نظر اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد 2022 میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خواتین اور بچوں کی حفاظت حکومت کی ترجیح ہے لیکن ہر شادی کو پرتشدد یا ہر مرد کو ریپسٹ نہیں کہا جا سکتا۔
بھارت میں مردوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں بھی میریٹل ریپ پر قانون بنانے کے خلاف ہیں۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے، اس لیے جب بھی میریٹل ریپ پر قانون بنانے کی بحث گرم ہوتی ہے، ایک نیا ٹرینڈ شروع ہو جاتا ہے، اور اس میں شامل لوگ وکالت کرتے ہیں کہ اگر ازدواجی عصمت دری پر قانون بنایا جائے تو مردوں کو بالکل شادی نہیں کرنی چاہیے۔
بھارت جرمنی سے کیا سبق لے سکتا ہے؟
ازدواجی عصمت دری کو قانونی جرم قرار دینے کا سہرا جرمنی کی مختلف سیاسی جماعتوں کی خواتین کے اتحاد کو جاتا ہے۔ اس میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی، گرین پارٹی، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی رہنما شامل تھیں۔ 1997 میں جب ازدواجی عصمت دری کے خلاف قانون بنایا گیا تو پارلیمنٹ کی 90 فیصد خواتین لیڈروں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
حقوق نسواں کے کارکنوں کا خیال تھا کہ ان رہنماؤں نے اپنی اپنی پارٹیوں اور پارٹی لائنوں کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خواتین کے حقوق کو ترجیح دی۔ قانون بننے سے پہلے جرمن وزراء سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ازدواجی رشتے میں ریپ کی تعریف کیسے کی جا سکتی ہے۔ پھر یہ قانون خواتین کے حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے پاس کیا گیا۔
منزل ابھی دور ہے
ازدواجی عصمت دری کا معاملہ براہ راست خواتین کی جسمانی خود مختاری سے جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر کے 57 ترقی پذیر ممالک میں سے نصف سے زیادہ ایسے ہیں جہاں خواتین کو مانع حمل ادویات لینے یا اپنے ساتھی کے ساتھ جنسی تعلقات (شادی کے ساتھ یا اس کے بغیر) کرنے کا حق نہیں ہے۔
امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے سروے کے مطابق ہر 10 میں سے 9 بھارتیوں کا ماننا ہے کہ بیویوں کو اپنے شوہروں کی بات ماننی چاہیے۔ عدم تعمیل اور خواتین کی جسمانی خود مختاری کی خلاف ورزی کی صورت میں، نتیجہ اکثر تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اب بھی، دنیا کے ایک بڑے حصے میں، اس تصور کو سماجی قبولیت حاصل ہے کہ شادی کے رشتے میں جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا خیال ہے کہ سماجی مخالفت اور مرضی کی کمی کی وجہ سے بہت سی حکومتیں اب بھی ازدواجی عصمت دری کو جنسی تشدد کے دائرے میں نہیں لانا چاہتیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 تک دنیا بھر میں صرف 42 فیصد ممالک نے ازدواجی عصمت دری کے خلاف قوانین بنائے تھے۔ دنیا بھر میں تقریباً 3 ارب لڑکیاں اور خواتین ایسے علاقوں میں رہ رہی ہیں جہاں ازدواجی عصمت دری کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔
ج ا ⁄ ص ز (ریتیکا)