بھارت میں ’انسانی خداؤں‘ کی بھرمار کیوں؟
2 اگست 2024بھارتی ریاست اترپردیش کے شمالی قصبے ہاتھرس میں دو جولائی میں ایک خود ساختہ بھگوان کی قیادت میں منعقد ہونے والے ستسنگ (مذہبی اجتماع) کے دوران بھگدڑ نے کم از کم 120 سے زائد افراد کی جان لے لی تھی۔
مغل گڑھی نامی گاؤں میں دیوتا شیوا سے وابستہ اس ستسنگ میں تقریبا ڈھائی لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔
اطلاعات ہیں کہ یہ حادثہ اُس وقت رونما ہوا، جب سکیورٹی اہلکاروں نے ان افراد کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی، جو اُس کیچڑ کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جن پر ان کے نام نہاد بھگوان چل رہے تھے۔
اس مذہبی اجتماع کی شان ہندوؤں کی مقدس شخصیت اور روحانی مبلغ سورج پال تھے، جنہیں 'بھولے بابا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
بھولے بابا بھارت بھر میں پوجے جانے والے ہزاروں انسانی بھگوانوں میں سے ایک ہیں۔ ماضی میں وہ اتر پردیش ریاستی پولیس میں کانسٹیبل تھے۔ لیکن ایک مبلغ کی حیثیت سے وہ ملک بھر میں مشہور و مقبول ہیں۔
بھارت: اترپردیش میں دو سادھوؤں کا قتل
بھارت میں سادھوؤں کے لیے وزیر مملکت کا درجہ
بھولے بابا اب لگژری گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے مالک بھی ہیں۔ ان کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ مریدوں سے ملنے والا چندہ اور عطیات ہیں۔ ان کا شمار اب سیاسی اشرافیہ میں بھی ہوتا ہے۔
بھولے بابا اور دیگر خود ساختہ ہندو سادھو بھارتی معاشرے میں پر سطح پر سرایت کر چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ مافوق الفطرت طاقتوں کے مالک ہیں اور بھگوانوں سے ان کا براہ راست رابطہ ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں بھارت میں ایسے نام نہاد 'روحانی‘ سادھو یا 'بھگوان‘ جنسی استحصال سے لے کر قتل تک کے جرائم میں ملوث پائے گئے ہے۔
سلاخوں کے پیچھے ہندو سادھو
سن 2014 میں سکیورٹی فورسز کو گرو رام پال سنگھ جتن کو گرفتار کرنے کی خاطر بلڈوزر کے ذریعے ایک دیوار گرانا پڑی تھی۔ اس 'جعلی پیر‘ کی گرفتاری کے لیے کم از کم بیس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے، جنہوں نے اس گرو کے دس ہزار حامیوں کو منشتر کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا تھا۔
گرو رام پال سنگھ جتن کی روحانی رہائش گاہ کی تلاشی کے عمل کے دوران اس آشرم کے احاطے میں دفن کردہ چار خواتین اور ایک 18 ماہ کے بچے کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
اسی طرح ایک مفرور گرو اور خود ساختہ بھگوان نتیانند کا قصہ بھی خبروں کی زینت بنا تھا۔ وہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ انہیں اغوا اور ریپ کے الزامات کا سامنا ہے۔
بھارتی پنجاب میں روحانی فرقے ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ 'گرمیت سنگھ رام رحیم انسان‘ کو نچلی ذات تصور کیے جانے والے دلت سکھوں اور دیگر گروہوں میں قابل احترام مقام حاصل تھا۔
وہ 2017ء میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب انہیں دو خواتین شاگردوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دو سال قبل وہ قتل کے دو الزامات میں بھی قصوروار قرار دیے گئے تھے۔
ایک اور روحانی پیشوا سوامی پریما نندا سن 1983 میں سری لنکا میں ہونے والے قتل عام سے بچ کر جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو پہنچے تھے، وہاں انہوں نے بہت سے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث انہیں اپنا مرید کر لیا۔ یہ خود ساختہ بھگوان آخر کار 13 لڑکیوں کے ریپ کا مجرم قرار دیا گیا اور ان کی موت جیل میں ہی ہوئی۔
'سائنس سب کچھ نہیں ہے‘
ماہرسماجیات دیپانکر گپتا کے بقول عقل پرست اس فرسودہ نظریاتی عقیدے کو سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں، جن پر راسخ العقیدہ لوگ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گرو یا سادھو بھارتی سماج میں موجود مذہبی بیانیوں سے ایک ایسی فضا تخلیق کر دیتے ہیں کہ مشکلات و مصائب کے شکار لوگ نہ صرف ان کے پیرو کار بن جاتے ہیں بلکہ ان پر اندھا یقین کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔
بھارت: مفرور بابا کا ہندوؤں کے لیے ایک نئی ریاست کا اعلان
بھارتی ’ریپ گرو‘ کو دس برس قید کی سزا، سکیورٹی انتہائی سخت
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں گپتا نے مزید کہا کہ یہ سوال کہ مذہب کو ماننے والے سائنس پر یقین کیوں نہیں رکھتے بذات خود ایک غیر سائنسی سوال ہے۔ لاعلمی، معاشرتی بیانیے اور روزمرہ زندگی کے مسائل میں انسان کو ایک ایسی روحانی طاقت درکار ہوتی ہے، جس پر یقین سے اس کا تزکیہ نفس ممکن ہوتا ہے۔
ماہر تعلیم اویجیت پاٹھک ان جعلی پیروں کو مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں تاہم وہ حقیقی روحانی رہنماؤں کی وکالت کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ منظم مذہب نے دراصل محبت اور ہمدردی کا پرچار کرنے والی مذہبیت کی جگہ لے لی ہے۔ ان کے بقول 'آرگنائزڈ ہندو مذہب‘ جبر کی سیاست کا موجب ہے۔ ان کا یہ الزام بھی ہے کہ نیو لبرل مارکیٹ کی فینسی 'روحانی صنعت‘ نے مراقبے کی جگہ لے لی ہے۔
مرالی کرشنن (ع ب ⁄ ش ر)