تارکین وطن: لیبیا کے لیے یورپی امداد ’انتہائی کم‘ ہے
26 جون 2017طویل عرصے انتظار کے بعد جب گزشتہ ماہ چار گشتی کشتیاں اٹلی سے لیبیا کے کوسٹ گارڈز کے حوالے کی گئیں، تو ان چار میں سے دو تکنیکی مسائل کا شکار تھیں، جب کہ ایک طرابلس پہنچتے ہوئے خراب ہو چکی تھی۔
لیبیا کے وزیر داخلہ نے یہ کشتیاں بحیرہ کے ایک اڈے پر حکام کے حوالے کیں، تو کوسٹ گارڈز نے شکایت کی کہ یہ کشتیاں پرانی ہیں اور ان پر ریسکیو کیے گئے تارکین وطن کو رکھنے کی جگہ بھی نہایت کم ہے۔
لیبیا کے کوسٹ گارڈز کے ترجمان ایوب قاسم کے مطابق، ’’وہ چاہتے ہیں کہ ہم یورپ کے لیے پولیس اہلکار کا کام کریں مگر یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پولیس اہلکار کو وسائل بھی درکار ہوتے ہیں۔ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ کوئی بھی ایسے حالات میں کام نہیں کر سکتا۔‘‘
گزشتہ چار برس میں نصف ملین تارکین وطن بحیرہء روم عبور کر کے لیبیا سے اٹلی پہنچے۔ ان تارکین وطن میں سب بڑی تعداد سب صحارن افریقہ کے ممالک سے تھی، جو اسمگلروں کو پیسے دے کر یہاں تک پہنچے۔ اس تمام عرصے میں قریب تیرہ ہزار افراد بحیرہء روم کی نذر بھی ہو گئے۔
یورپی حکومت کی خواہش ہے کہ لیبیا سے تارکین وطن کی یورپ آمد کا سلسلہ رکے اور وہاں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کی جائیں مگر یورپی یونین اور اٹلی کی جانب سے تارکین وطن کی روک تھام کے لیے نئے اقدامات کے اعلان کے باوجود یہ بحران حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
لیبیا کے حکام اگر تارکین وطن کی کوئی کشتی پکڑتے ہیں، تو انہیں اپنے ہاں قائم حراستی مراکز لے جاتے ہیں۔ لیبیا میں قائم ایسے مراکز میں قریب آٹھ ہزار تارکین وطن موجود ہیں۔ یورپی یونین متعدد مرتبہ یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ حراستی مراکز میں تارکین وطن کے لیے حالات سازگار بنائے جائیں۔
تارکین وطن بھی بتاتے ہیں کہ لیبیا میں قائم حراستی مراکز میں مہاجرین پر تشدد کیا جاتا ہے اور وہاں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔