تارکین وطن کی ایک اور کشتی غرق، سو سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ
15 جنوری 2017روئٹرز اور دیگر نیوز ایجنسیوں نے اطالوی ساحلی محافظوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی غرق ہونے کا یہ واقعہ ہفتہ چودہ جنوری کی شب لیبیا کے ساحلوں سے پچاس کلو میٹر کی دوری پر وسطی بحیرہٴ روم میں پیش آیا۔ اس کشتی میں ایک سو سے زائد تارکین وطن سوار تھے، جو سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی کی جانب روانہ تھے۔
یورپ آنے والے سبھی مہاجرین کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ
امدادی کارروائیوں میں مصروف اطالوی ساحلی محافظوں نے چار افراد کو زندہ بچا لیا۔ اب تک تیرہ پناہ گزینوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جب کہ نوّے سے زائد مہاجرین ابھی تک لاپتہ ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لاپتہ پناہ گزینوں کے زندہ بچنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔
اطالوی ساحلی محافظوں کے ایک ترجمان کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں فرانسیسی اور اطالوی بحریہ کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جنہیں بحری جہازوں اور کشتیوں کے علاوہ ہیلی کاپٹرز کی بھی مدد حاصل ہے۔
اس واقعے کے علاوہ صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بحیرہٴ روم میں 750 سے زائد تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا گیا جب کہ پانچ دیگر پناہ گزینوں کی لاشیں بھی بحیرہٴ روم سے نکالی گئیں۔ ربڑ اور لکڑی کی چھوٹی اور خطرناک کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے ان پناہ گزینوں کو اطالوی کوسٹ گارڈز، بحریہ اور نجی شعبے کی کشتیوں نے بچایا۔
ساحلی محافظوں نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ اب تک ڈوب جانے والے اور بچائے جانے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن کن ممالک سے ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین پناہ گزینوں کو روکنے کے بارے میں ایک معاہدہ طے پانے اور بلقان کی ریاستوں کی جانب سے اپنی ملکی سرحدیں بند کرنے کے بعد لیبیا سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016ء میں بحیرہٴ روم کے وسطی راستوں کے ذریعے ایک لاکھ اکیاسی ہزار سے زیادہ پناہ گزین اٹلی پہنچے تھے۔ اٹلی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا، جنہوں نے لیبیا میں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کو بھاری رقوم دے کر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی کا رخ کیا تھا۔
تاہم گزشتہ سال مہاجرین کے لیے اب تک کا سب سے زیادہ جان لیوا سال ثابت ہوا۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس دوران صرف بحیرہٴ روم میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں