ایردوآن کا دورہ پاکستان، مسلم امہ کو درپیش چیلنجز پر گفتگو
2 اگست 2015صدر ایردوآن ہفتے کی شام ایک غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔ اسلام آباد میں نور خان ایئر بیس پر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کا استقبال کیا اور دونوں رہنماؤں نے دو گھنٹے کی ایک ملاقات میں مختلف امور پر باہمی مشورے کیے۔ پاکستان کے سرکاری ریڈیو کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مسلم ممالک کو درپیش چینلجز پر بھی گفتگو کی۔
ایردوآن نے ایک ایسے وقت پر پاکستان کا یہ دورہ کیا، جب ترک افواج ہمسایہ ملک عراق کے شمالی علاقوں میں کردستان ورکرز پارٹی PKK کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے علاوہ شام میں سرگرم انتہا پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بھی عسکری کارروائیاں کر رہی ہیں۔
پاکستان کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ ترک صدر کے دورہ پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ وہ شام میں جاری ترک عسکری کارروائیوں کے حوالے سے اسلام آباد حکومت کا اعتماد حاصل کر سکیں۔ اس حکومتی اہلکار نے مزید کہا کہ انقرہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس بارے میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور پاکستان جیسے ممالک کا اعتماد جیتا جائے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق صدر ایردوآن انڈونیشیا کے دورے کے بعد ہفتے کی شام اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں قریب دو گھنٹے قیام کے بعد وہ اپنے وطن لوٹ گئے۔
یہ امر اہم ہے کہ شام میں ترک فوج کی فضائی کارروائیوں پر مغربی ممالک میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ ایردوآن کی دائیں بازو کی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں میں سست ثابت ہوئی ہے، جو ترکی کے راستے شام یا عراق جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت کے اس اعلیٰ اہلکار کے بقول ایردوآن اپنے ملک کو جہادیوں سے لاحق خطرات سے بچانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق ایردوآن اور نواز شریف نے باہمی تجارتی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے بعد ازاں کہا کہ انہوں نے صدر ایردوآن کے ساتھ اپنی مختصر ملاقات میں تجارتی تعاون کو مزید بڑھانے پر بھی گفتگو کی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ دفاعی تعاون پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔
بتایا گیا ہے کہ صدر ایردوآن اور وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ دور حاضر میں مسلم امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔ اس ملاقات میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور خارجہ امور کے لیے پاکستانی وزیر اعظم کے خصوصی مشیر طارق فاطمی بھی موجود تھے۔