ترک نژاد خاتون کے قاتل کو جرمنی سے نکال دیا گیا
21 اپریل 2017سربیا سے تعلق رکھنے والے سانل ایم نے ترک نژاد خاتون توجچے البیراک پر سن 2014 میں حملہ کیا تھا۔ اُس کو جمعرات بیس مارچ کو ملک بدر کرتے ہوئے سربیا روانہ کر دیا گیا ہے۔ تیئیس سالہ توجچے البیراک ایک طالبہ تھی اور اُس کے سر پر مجرم نے ایک سلاخ سے حملہ کیا تھا۔ وہ کئی دن کومے میں رہنے کے بعد دم توڑ گئی تھی۔
مجرم سانل ایم کی ملک بدری کے حکم کے خلاف دائر اپیل کو جرمن ریاست ہیسے کی ایک عدالت نے مسترد کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ سانل ایم ابھی بھی جرمن معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور وہ رہائی کے بعد مزید جارحانہ انداز میں خطرناک کارروائیوں کاباعث ہو سکتا ہے۔ عدالت کے مطابق ملک بدری سے جرمن معاشرے کو اِس کے خطرناک عزائم سے بچانا ممکن ہے۔
ملک بدری کا فیصلہ ہیسے کے امیگریشن حکام نے رواں برس مارچ میں کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت جمعرات کو اُسے فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے سے سربیا کے لیے روانہ کیا گیا۔ اُس پر یہ بھی پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اگلے آٹھ برس کے دوران جرمنی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
توجچے البیراک پر حملہ کرنے والے سانل ایم نے ہیسے کی عدالت میں اپنے حملے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ جرمن صوبے ہیسے کے وزیر داخلہ پیٹر بوئتھ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا جرائم کا بار بار ارتکاب کرنے والا کوئی بھی شخص معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ بوئتھ نے مزید کہا کہ جو شخص اپنے مجرمانہ ماضی پر شرمندہ نہ ہو اور اُسے کوئی پچھتاوا بھی نہ ہو، ایسے شخص کو جرمن سوسائٹی میں مدغم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پندرہ نومبر سن 2014 کو توجچے البیراک نے ایک کلب کے اندر دو ٹین ایج لڑکیوں کو تنگ کرنے والے سانل ایم کی سر زنش کی تھی۔ یہ نوجوان اُس وقت پیچھے ہٹ گیا لیکن وہ ترک نژاد جرمن خاتون کا منتظر رہا۔ جب وہ کار پارک میں آئی تو اُس نے نوجوان خاتون کے سر پر حملہ کیا۔ یہ حملہ پہلے کو مے کا باعث بنا اور پھر البیراک اسی حالت میں فوت ہو گئی۔
سانل ایم جرمن شہر اوفن باخ میں پیدا ہوا تھا اور اسکول میں تعلیم بھی حاصل کرتا رہا تھا لیکن وہ جرمن شہریت حاصل نہیں کر سکا تھا۔