ترک پارلیمان سے جرمن صدر کا خطاب۔ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
20 اکتوبر 2010جرمن صدر کے اِس تیسرے غیر ملکی دورے سے پہلے ملک کے اندر حالات ساز گار نظر نہیں آ رہے تھے۔ آج کل جرمن معاشرے میں تارکین وطن کے انضمام سے متعلق یہاں جذبات سے بھرپور بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ہفتہ وار جریدے ’فوکس‘ نے اپنے تازہ ترین شمارے کے سر ورق پر جرمن صدر کی جو تصویر چھاپی ہے، اُس میں وہ جرمن بالکل نہیں لگتے۔ کرسٹیان وولف کو ایک سفید ٹوپی اور سیاہ مونچھوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ وہ ایک مسلمان امام لگ رہے ہیں۔ وولف نے 3 اکتوبر کو منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر یہودیت اور مسحییت کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی جرمنی کا ایک حصہ قرار دیا تھا۔
منگل کو ترکی کی قومی اسمبلی سے جرمن صدر کا خطاب عوام نے بڑی انہماک سے دیکھا۔ پارلیمانی اراکین کے سامنے کرسٹیان وولف نے بڑے واضح الفاظ میں تقریر کی۔ ایک طرف انہوں نے اپنے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ اسلام بھی اب جرمن معاشرے کا حصہ بن گیا ہے۔ دوسری جانب انہوں نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ مسیحیت ترکی کا حصہ ہے اور ترکی میں آباد مسیحی باشندوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں وولف نے ترکی میں پادریوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے بندوبست کی بات بھی کی، جو ابھی ممکن نہیں ہے۔
جرمن صدر نے ان موضوعات کے علاوہ اپنے میزبانوں کے ساتھ متعدد دیگر متنازعہ مسائل کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ مثلاً قبرص اور آرمینیا کے تنازعے جیسے موضوعات بھی زیر بحث لائے گئے۔ جرمن صدر نے ترکی کی پارلیمان میں اپنے خطاب میں اسرائیل کے وجود کے تحفظ کے حق اور ایک آزاد، خود مختار اور جمہوری طور پر منتخب حکومت والی فلسطینی ریاست پر بھی زور دیا۔ اس ضمن میں جرمن صدر نے ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن پر اسرائیل کے ساتھ مکالمت کو دوبارہ سے آگے بڑھانے کا بالواسطہ مطالبہ بھی کیا۔
جرمن صدر نے ترکی کو اُس کی یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں نہ تو زبانی کلامی دلاسے دئے، نہ ہی اُس سے کوئی وعدہ کیا۔ نہایت ہوشیاری کے ساتھ، واضح اور غیر مبہم انداز میں وولف نے ترکی میں جمہوری اور اقتصادی ترقی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین میں اُس کی رکنیت کے بارے میں وہ بات چیت آئندہ بھی جاری رہنی چاہئے، جس کا آگے چل کر کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔
جرمن صدر کا ترکی کا 5 روزہ دورہ یقیناً برلن اور انقرہ کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
تبصرہ: باہا گُنگور
ترجمہ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی